ہاٹ ہندی لینڈ کی تین ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج سامنے آچکے ہیں۔ان تینوں ریاستوں میں سے دو ریاستوں میں جہاں کانگریس کو عوام نے مکمل اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے کا موقع فراہم کیاہے۔
وہیں مدھیہ پردیش میں عوام نے کانگریس کو سبس ے بڑی پارٹی بناکر اور دوسری جماعتوں کو مضبوط کرکے یہ پیغام دیا ہے کہ ملک میں فرقہ پرستی ‘ نفرت‘ دہشت اور تقسیم کی سیاست کے دن اب پورے ہوچکے ہیں۔ اب مذہبی جنون پیدا کرکے لوگوں سے ووٹ نہیں لیاجاسکتا ہے۔
وہیں چوتھی ریاست تلنگانہ میں عوام نے وہاں اگرچہ کانگریس پارٹی کو اکثریت نہیں دی ہے۔
لیکن وہاں بھی عوام نے سکیولرزم کی سیاست کرنے والی ٹی آر ایس کو ہی مینڈیٹ دیا ہے اور بی جے پی کے ٹیپو سلطان کو ویلن بناکر ووٹ حاصل کرنے کا نظریہ مسترد کردیا ہے۔
جبکہ میزروم میں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کی بدترین شکست سے یہ صاف ہوگیا ہے کہ اب بی جے پی کے ایجنڈے کو پورا ملک سمجھ چکا ہے اور وہ مزید مندر مسجد کے ایشوز میں الجھ کر اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا ہے۔ ا
ن سبھی پانچوں ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج سے جہاں بی جے پی کو بری طرح نقصان ہوا ہے ‘ وہیں کانگریس سمیت وہ تمام سکیولر جماعتیں جو کانگریس سمیت وہ تمام سکیولر جماعتیں جو کانگریس کے نظریے میںیقین رکھتی ہیں‘ جن کا گاندھی وادے نظریے میں اعتماد ہے۔
ان کو عوام نے مکمل اکثریت دینے کاکام کیاہے۔ اس سے یہ بات صاف ہوگئی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی فرقہ پرستی پر مبنی پالیسی ہوا ہوائی ہوگئی ہے۔
بی جے پی نے جس طرح سے پورے انتخابات کو ترقی کے ایشوز سے ڈی ریل کرکے نفرت پھیلانے اور مختلف طبقات وذاتوں کو آپس میں لڑانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ‘ جس طرح سے بی جے پی نے اس پورے اسمبلی انتخابات میں انتخابی ضابطہ اصولوں کی دھجیاں آرائیں اور علی وبجرنگ بلی کرکے الیکشن کو ہندو مسلم کرنے کی ناکام کوشش کی ‘ وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
اترپردیش کے وزیراعلی یوگی جن سے خود کی اپنی ریاست سنبھل نہیں رہی ہے اور عام آدمی سے لے کر وردی والا تک ان کی ریاست میں محفوظ نہیں ہے ‘ انہوں نے اسمبلی انتخابات کی تشہیر میں جو زہر ڈالا تھا وہ انتہائی شرمناتھا کیکن جس کی فطرت میں ہی نفرت کا پرچار ہواس سے محبت کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔
لیکن اگر انسان ٹھوکر کھانے کے بعد بھی سنبھ جائے تو وہی مہان کہلاتا ہے امید ہے کہ یوگی جی اور بی جے پی سبق ضرور لیں گے۔
وزیراعظم مودی نے جس طرح سے کانگریس پارٹی کی لیڈر سونیا گاندھی جی کو خطاب کرتے ہوئے کانگریس کی ودھوا( بیوہ) کہہ کر انہیں خطاب کیاتھا اس نے توساری ریکارڈ ہی توڑ دئے تھے اور سب سے اس پر اظہار افسوس کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی سے معافی مانگنے کی اپیل بھی تھی او رکہاکہ تھا کہ معافی مانگنے سے وزیراعظم کا قد بڑھے گا۔لیکن شائد ہمارے وزیراعظم کی یہی عادت ہے۔
جس طرح انہوں نے دھمکی بھرے لہجے میں کہاکہ اب دیکھتا ہوں ماں اور بیٹے کو کون بچاتا ہے‘ ضمانت پر رہا ہیں‘ جیسے الفاظ کا استعمال کیا‘اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ زبان ایک وزیراعظم کی نہیں ہوسکتی ہے۔
اپنے لیڈر کے راستے پر چلتے ہوئے یوگی جی نے اس میں اگے جوڑ دیا ہنومان جی دلت تھے جس کے بعد انہیں نرہمن سماج کی مخالفت کا سامنا کرنا پرا اور برہمن سبھا نے یوگی ادتیہ ناتھ کواس کے لئے نوٹس بھی بھیجا‘ وہیں بی جے پی کے ایک لیڈر نے کہاکہ ہنومان جی دلت نہیں بلکہ قبائیلی تھے ۔
ہنومان جی کو دلت بتاکر یوگی ادتیہ ناتھ ظاہر سی بات ہے دلت سماج کواپنی طر ف مائل کرنا چاہ رہے تھے‘ لیکن دلت سماج بھی یوگی جی کی اس چال کو بخوبی سمجھ رہا ہے او ریہی وجہہ ہے کہ وہ خود سامنے آگیا اور اس نے الیکشن کو ہندو مسلم نہیں ہونے دیا۔
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ آزاد کے بعداس وقت دلت سماج کے اندر جتنی بیداری اپنے مسائل کو لے کر وہ اپنے مسائک کو لے جس قدر ہوشیا ر اور چاق چوبند ہے شائد آزادی کے بعد سے ایسا کبھی نہیں ہوا ۔
یہی وجہہ ہے کہ راجستھان کی جن اسمبلی سیٹوں کو بی جے پی نے نفرت پھیلاکر جیتنے کی کوشش کی تھی اور وہاں دلت کو آگے کرکے مسلمانوں سے لڑانے کی کوشش کی تھی وہ اس میں کامیاب نہیں ہو پائی۔
وزیراعظم مودی سے بھی زیادہ یوگی ادتیہ ناتھ کی 74ریلیاں اس بات کی دلیل ہی ں کہ بی جے پی مستقبل میں بھی جمہوریت اور ہندوستانیت میں یقین نہ کرکے فرقہ پرستی ‘ مسجد اور مندر ‘ بانٹو راج کرو کی بنیاد پر ہی مستقبل کی پالیسی طئے کرنا چاہتی ہے۔
بہتر ہوتا کہ ایودھیامیں بلائی گئی دھرم سنسد کے بعد اگر بی جے پی کو سیکھ ملی ہوتی اور وہ سمجھ گئی ہوتی کہ اب لوگ مسجد اور مندر کے نام پر نہیں بلکہ روزگار‘ کسانوں کے ایشوز ‘ ترقی کی بنیادوں پر الیکشن ایجنڈہ لڑنا چاہ رہے ہیں تو شائد اس کی آج جو حالت ہپے اس سے کچھ بہتر ہوتی لیکن کہتے ہیں کہ جب آدمی خود نہ سیکھنا چاہے تو قدر اس کے دماغ پر پردہ ڈال دیتی ہے ۔ دل ہونے کے بعد بھی وہ سمجھ نہیں سکتا ۔ آنکھ ہونے کے بعد بھی وہ دیکھ نہیں سکتا اور کان ہونے کے بعد وہ سن نہیں سکتا ۔
یہی سب کچھ بی جے پی کے ساتھ ہوا اور کیوں نہ ہو ‘ کیونکہ قدرت کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔جس طرح سے بی جے پی کی نفت کی سیاست نے ہزاروں معصوموں کی جان لے لی ‘ آخر ان کی آہیں تو رنگ لائیں گی۔ جس طرح سے نوٹ بندی کرکے ہمارے کے پردھان سیوک نے ایک نہیں بلکہ سوسے زائد لوگوں کو سڑکوں پر مرنے کے لئے چھوڑ دیا ‘ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں سے روزگار چھین لیاگیا‘ ان کے گھر کا چولہا غائب ہوگیا‘ آخر اس کا انجام توسامنے ائے گا ہی۔
افسوس اس بات کا ہے کہ ووٹوں کی گنتی کے دوران بی جے پی کے ایک ترجمان نے یہاں تک کہہ دیا کہ راجستھان میں کانگریس خوش نہ ہو‘ کیونکہ یہاں دیگر کی تعداد اچھی خاصی ہے ۔
اس سے صاف ظاہر تھا کہ بی جے پی اب بھی سیکھ لینے کے بجائے جوڑ توڑ کی سیاست میں زیادہ یقین اوراعتماد رکھتی ہے لیکن لوگوں نے ان تمام چیزوں کو مسترد کرکے کانگریس پارٹی کو مکمل اکثریت دی اور سب سے بڑی پارٹی بناکر سرکاری بنانے کا موقع فراہم کیا۔
ان تمام کے برعکس کانگریس صدر راہول گاندھی نے نتیجے کے بعد جس طرح سے سرجھکاکر نتیجے کو تسلیم کیااور ای وی ایم سے لے کر سی ایم تک کے ہرسوال کا انہوں نے جس طرح سے جواب دیا اس سے ان لگوں کو ضرورجواب مل گیاہوگا جو انپیں پپو سمجھتے ہیں یا کہتے تھے۔
میں نے ہمیشہ سے یہ بات کہی کہ راہول گاندھی ملک کی سب سے بڑی پارٹی کے سب سے بڑے لیڈر ہیں۔ اس لئے انہیں ہلکے میں لینا غلطی ہوگی اور سب سے بڑی پارٹی کے سب سے زیادہ اختیارات بھی ہوتے ہیں اور کانگریس ہی ایک ایسی پارٹی ہے جس کی جڑیں ملک کے کونے سے لے کر دوسرے کونے تک موجود ہیں۔کانگریس صدر سے بی جے پی کو سیکھ لینی چاہئے کہ وہ بی جے پی مکت بھارت پر کیا سوچتے ہیں او رکیاوہ ملک سے کسی کو نکالنا چاہتے ہیں۔
بی جے پی کو چاہئے کہ راہول گاندھی کی کل کی پریس کانفرنس کو بند کمرے میں ایک بار نہیں بلکہ سو بار سنے اور اس پر غور کرے اوران سے سیکھ لے کر آنے والے کل کی حکمت عملی طئے کریں۔بھارتیہ جنتا پارٹی اگر مستقبل کی سیاست کرنا چاہتی ہے تو اب اس کے لئے ضرور ہے کہ وہ اپنے ان تخریب کاری والے ایشوز سے توبہ کرے اوریہ سمجھ لے کہ مذہبی جنون پیدا کرکے نفرت پھیلا کر اقتدار تک پہنچاتو جاسکتا ہے لیکن یہ سیاست بہت دیر اور بہت دور تک نہیں چلتی ہے ۔
اگر وہ ملک میں خود کو زندہ رکھنا چاہتی ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اب بھی تعمیر اورترقی کی بات کرے اور ملک کے ان ایشوز کو ایڈریس کرے او رعملی طور پر اس کے حل کے لئے کام کرے جو جوانوں ‘ نوجوانوں اور کسانوں سے منسلک ہیں ‘ تاکہ ہر غریب اور مزدو ر کو انصاف مل سکے اور وہ پسماندہ طبقات کوان کا حل