کہاجاتا ہے کہ پرنٹ جرنلزم کی کوکھ میں جنم لیا ریڈیو کی صحافت نے پھر ان دونوں نے ٹیلی ویثرن کی صحافت کو گودلیا اور اس کے خدوخال کو نکھار اور اس کو بے پناہ حسن وجمال عطا کرکے دنیا کے نگا ر خانوں میں سجادیا۔اپنی جادوئی اداوں سے ٹیلی ویثرن کی صحافت نے عام آدمی کو بہت کم عرصہ میں اپنا دیوانہ بنالیا اور پھر اس کے بیڈروم تک میں گھس گئی۔اس کے اسی پہنچ اور رسائی کی وجہہ سے ایسے لوگ بھی اس کی بازبرداریاں کرنے لگے جو اہل سیاست کے ایجنٹ تھے جو اس کے حسن کو بیچ کر فقط دولت کمانا چاہتے تھے۔ انہیں تو بس ایسے تماشائی چاہئے تھے جو اسکی اداؤں پر سونے چاندی کے سکے لٹاسکیں۔ان کی نظر میں نہ تو احساسات و جذبات کی کوئی قیمت تھی اور نہ وہ اس بات سے واقف تھے کہ اس کی ادائیں لوگوں کو باخبربنانے کے لئے ہیں نفرتیں پھیلانے کے لئے نہیں۔
عدم واقفیت کی وجہہ یہ ہے کہ کسی میڈیا ہاوس میں کوئی ذمہ دار شخص کو تعینات نہیں کیا جاتا جو اپنے یہاں بھرتی ہونے والے صحافیوں کو صحافی اصول وضوابط کے بارے یں بتائے اور سیکھائے کہ کیادکھانا ہے اور کیا نہیں۔مگر افسوس کے ٹی آر پی اور اشتہارات سے ہونے والی آمدنی پر نظر رکھنے والے چیانل بس اس بات کی فکر کرتے ہیں کہ کس طرح زیادہ سے زیادہ ناظرین کو متوجہ کیاجائے اور اسی کوشش نے اچھے برے اور نیک وبد کی تمیز کو مٹادیا ہے۔ کبھی نیوز چینل ایسی خبریں ڈھونڈ کر لاتے تھے جن سے سماج میںیکجہتی پیدا ہو مگر اب کئی چینلوں کی مسلسل یہی کوشش ہے کہ معاشرے میں زیرکیسے گھولا جائے ۔
پہلے ملک کے سیکولر اقدار کو فروغ دینے کا کام ہوتاتھا مگر اب تو کئی نیوز چینلو ں نے یکجہتی او راتحاد کو بالائے طاق رکھ کر فرقہ واران منافرت پھیلانے کی مہم شروع کردی ہے ۔ کل رات میری حیرانی کی انتہا نہیں رہی جب میں نے دیکھا کہ زی نیوز پر اس کے سربراہ سدھیر چودھری ہندوستانی تاریخ کی دوکتابیں ہاتھ میں لے کر ائے اور ان میں سے ایسے تاریخی واقعات انہوں نے پڑھنا شروع کردئے جن میں مسلم بادشاہوں کی جانب سے ہندوؤں کو جبری طور پر مسلمان بنانے کی کوششوں کا ذکر کیاگیاتھا۔خاص طور پر اورنگ زیب کے ہاتھوں گرو تیغ بہادر کے بچوں کو بیدردی سے قتل کئے جانے کے واقعات کو اس انداز میں پیش کیاگیاتھا کہ سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان نفرتیں پیدا ہوں۔
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تاریخ کی کتابوں میں درج نفرت بھرے قصوں کو دوہراکر سدھیر چودھر اس ملک کی کون سی خدمت کرنا چاہتے ہیں؟اگر ان کو شہنشاہ اورنگ زیب کے واقعات بتانا تھے تو پھر اورنگ زیب کے ہاتھوں قتل ہونے والے بھائیوں اورسر مد جیسے بڑے صوفی شاعر کی گردن زنی کا ذکر کرتے اور بتاتے کہ بادشاہ مذہب کے نام پر نہیں بلکہ اپنی مخالفت کرنے والو ں کو قتل کرتے ہیں اور ہاں اگر ہندوستاننی تاریخ کے صفحات ہی پلٹنا تھے تو پھر بودھ مذہب پر کس نے ظلم توڑے‘ ماصی میں جین فرقے کی نسل کشی کس نے کی اس کا بھی ذکر کرتے۔ اگر سکھوں سے ہمدردی تھی تو پھر یہ بھی بتاتے کہ اکال تخت اور دربار صاحب پر فوج کشی کس کس نے کی۔
میںیہ سوچ کر حیران ہوتا ہوں کہ ایک وزیراعظم نریندر مود ملک کو ترقیوں او ربلندیوں پر لے جانے کا خواب عوام کو دکھا رہے ہیں دوسری جانب خود ان کی پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ کا نیوز چینل ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرتیں پیدا کرکے ملک کو پیچھے ڈھکیلنے کے لئے تاریخ کی قبر کھود کھود کر منافرت کے کنکال ( ڈھانچے) نکال رہا ہے ۔ کیا ملک میں نفرتیں پیدا کرنے والی تنظیموں اور بھڑکاؤ بیان دینے والے کی کمی ہے جو زی نیوز تاریخ کے ملبے میں دب چکے واقعات کو ڈھونڈڈھونڈ کر نکال رہا ہے؟۔
کیا زی نیوز کو لگتا ہے کہ وہ نفرتوں میں اضافہ کرکے اس ملک کی خدمت کرسکے گا؟۔سدھیر چودھری کو سماج میں کھلے عام منافرت پھیلاتے ہوئے دیکھ کر اس بات کا بھی شک پیدا ہوتا ہے کہ یہ کام وہ کہیں ملک دشمنوں کے ساتھ سازباز کرکے تو نہیں کررہے ہیں کیونکہ سدھیر کی شخصیت پہلے سے ہی مشکوک ہے وہ ایک صنعتی گھرانے کو بلیک میل کرکے سو کروڑ روپئے مانگنے کے معاملے میں جیل جاچکے ہیں