کویتا کا اسمبلی سے مقابلہ، ڈی سرینواس کے فرزند ڈی اروند امکانی امیدوار ، کانگریس اور ٹی آر ایس کیڈر سے ربط میں
حیدرآباد۔/4 مئی، ( سیاست نیوز) نظام آباد لوک سبھا حلقہ کو کیا ٹی آر ایس پارٹی 2019 کے انتخابات میں بی جے پی کو تحفہ کے طور پر پیش کریگی؟ ۔ ضلع کے سیاسی حلقوں میں جاری تازہ ترین سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے یہ سوال پیدا ہوا کیونکہ موجودہ رکن پارلیمنٹ و چیف منسٹر کی دختر کویتا آئندہ انتخابات میں لوک سبھا کے بجائے کسی ایک اسمبلی حلقہ سے مقابلہ کی تیاری کررہی ہیں جبکہ سابق صدر پردیش کانگریس و ٹی آر ایس کے موجودہ رکن راجیہ سبھا ڈی سرینواس کے فرزند بی اروند بی جے پی ٹکٹ پر مقابلہ کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ڈی اروند جنہوں نے گزشتہ سال ستمبر میں بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی وہ اپنے والد ڈی سرینواس کے تجربہ اور ان کے حامیوں کو اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ڈی اروند نے اپنے سیاسی عزائم کو مستحکم کرنے اور عوام میں اپنے تعارف 135 کلو میٹر تک پدیاترا کرکے کاشتکاروں کے مسائل پر آواز اٹھائی۔ انہوں نے نظام شوگر فیکٹری کے احیاء کا مطالبہ کرتے ہوئے تحریک چھیڑ دی ہے۔ بی جے پی نے ڈی اروند کو پارٹی کا ریاستی رکن عاملہ مقرر کیا ہے۔ ڈی اروند جو ایک تاجر ہیں ان کی نظریں اپنے والد ڈی سرینواس کے حامیوں پر ٹکی ہیں جن کے تعاون اور والد کے تجربہ کے ذریعہ وہ نظام آباد لوک سبھا نشست پر قبضہ جمانا چاہتے ہیں۔ ڈی سرینواس کے حامی چاہے وہ کانگریس کے ہوں یا ٹی آر ایس کے انہیں منانے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ نظام آباد ضلع میں ترقی کے نئے دور کا آغاز ہو۔ بتایا جاتا ہے کہ موجودہ ایم پی کے کویتا نے لوک کی بجائے اسمبلی سے مقابلہ کا من بنایا ہے۔ ایسے میں نظام آباد کی نشست ٹی آر ایس کی جانب سے بی جے پی کو بطور تحفہ پیش کی جاسکتی ہے۔ اس کیلئے ڈی سرینواس کے فرزند سے بہتر کوئی امیدوار نہیں ہوسکتا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ ڈی سرینواس بھی چاہتے ہیں کہ ان کے سیاسی جانشین کے طور پر اروند لوک سبھا کیلئے منتخب ہوں۔ اس کیلئے وہ اپنی قدیم پارٹی کانگریس کے ساتھیوں سے ربط میں ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ڈی اروند کے بی جے پی ہائی کمان سے بہتر تعلقات ہیں اور پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری رام مادھو جو لوک سبھا حلقہ نظام آباد کے انچارج ہیں ان سے قریبی روابط ہیں۔ بی جے پی میں شمولیت کے ساتھ ہی اروند نے نظام آباد حلقہ میں پارٹی کو مستحکم کرنے کئی عوامی مسائل پر تحریک چلائی۔ گنے کے کاشتکاروں کے مسائل اور نظام شوگر فیکٹری کے احیاء کے علاوہ اروند نے یوتھ کلب ممبرس پر توجہ مبذول کی ہے۔ ڈی سرینواس جو نظام آباد میں 4 دہوں پر مشتمل سیاسی کیریئر رکھتے ہیں وہ اسمبلی میں تین مرتبہ نظام آباد کی نمائندگی کرچکے ہیں۔ کابینی وزیر کے علاوہ وہ متحدہ آندھرا میں پردیش کانگریس صدر رہے ۔ نظام آباد اربن و رورل میں ڈی سرینواس کے حامی موجود ہیں۔ ٹی آر ایس میں شمولیت کے بعد کئی کانگریس کارپوریٹرس نے ٹی آر ایس میں شمولیت اختیار کرلی۔ نظام آباد کے ٹی آر ایس ایم ایل سی بھوپتی ریڈی ان دنوں مخالف پارٹی سرگرمیوں کے سلسلہ میں ٹی آر ایس ہائی کمان کی نظر میں ہیں ان کا شمار ڈی سرینواس کے حامیوں میں ہوتا ہے۔ ڈی سرینواس کے حامیوں کو ٹی آر ایس میں نظر انداز کئے جانے کی شکایت ہے۔ حالیہ پلینری میں ڈی سرینواس کو اسٹیج پر جگہ نہیں دی گئی۔ اس کے علاوہ جائزہ اجلاسوں میں بھی انہیں مدعو کرنے سے گریز کیا جارہا ہے۔ اس صورتحال میں ڈی سرینواس خود بھی پارٹی میں تنہا محسوس کررہے ہیں۔ لہذا انہوں نے اپنے سیاسی جانشین کے طور پر فرزند کو پارلیمنٹ کیلئے منتخب کرانے کا من بنالیا ہے۔ ڈی سرینواس اور ان کے حامیوں میں پھیلی بے چینی اور ٹی آر ایس سے ناراضگی کا فائدہ بی جے پی کو پہنچ سکتا ہے۔ ڈی سرینواس کے ایک حامی نے کہا کہ اگرچہ ڈی سرینواس قابل اور تجربہ کار ہیں لیکن ٹی آر ایس انہیں نظرانداز کررہی ہے۔