نجیب کی ماں نے سی بی ائی ہیڈکوارٹر کے روبرو احتجاجی دھرنا منظم کیا

جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طالب علم نجیب پچھلے دوسال سے لاپتہ ہیں۔
نئی دہلی۔جواہرلال نہرو یونیورسٹی کے لاپتہ طالب علم نجیب احمد کی ماں نے جمعہ کے روز سی بی ائی ہیڈکوارٹر کے باہر احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے نجیب کی تلاش میں تیزی لانے کا مطالبہ کیا۔

نجیب احمد2016اکٹوبر سے لاپتہ ہے۔جے این یو‘ دہلی یونیورسٹی‘ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سینکڑوں طلبہ کے ہمراہ نفیس 3:30بجے کے قریب سی جی او کامپلکس میں واقعہ سی بی ائی ہیڈکوارٹر پہنچی۔

انہوں نے کہاکہ ’’ دوسال سے میرے بیٹا کیمپس سے لاپتہ ہے۔ سی بی ائی نے اس کی تلاش میں اب تک کچھ نہیں کیا۔دراصل یہ فائیل بند کرنے کی رپورٹ پر زور دے رہے ہیں۔ ایسا ہونے نہیں دیاجائے گا۔

میں سڑک پر اتر کر اندولن کی شروعات کرونگی‘‘۔ جب سے 27سالہ احمد جے این یو کا ایم ایس سی سال اول کا طالب علم اپنے ہاسٹل سے 16اکٹوبر2016کو لاپتہ ہوئے ہیں نفیس نے اپنے لئے انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔

لاپتہ ہونے سے ایک رات قبل احمد کا مبینہ طور پر آر ایس ایس کی حمایت وائی اکھیل بھارتیہ ویدیارتی پریشد( اے بی وی پی ) کارکنوں سے جھڑپ کا واقعہ پیش آیاتھا۔

انہوں نے کہاکہ ’’ لاپتہ ہونے سے قبل کی رات کو میرے بیٹے کے ساتھ مارپیٹ کرنے والوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی ہے۔ دراصل وہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں کہ میرے بیٹے کے ساتھ مارپیٹ کی گئی ہے‘‘

طلبہ کی جانب سے ’’ نجیب کو واپس لاؤ‘ اور ’’ ہم نجیب ہیں‘‘ کے نعروں کے بیچ نفیس نے دور گھنٹوں تک سی بی ائی عہدیداروں کے ردعمل کا انتظار کرتی رہیں۔نفیس نے کہاکہ’’وہ مجھ اس لئے ملنا نہیں چاہتے کیونکہ ان کے پاس میرے سوالوں کا جواب نہیں ہے‘‘۔

انہو ں نے مزیدکہاکہ جیسے ہم نے 5:30کے قریب احتجاج کو ختم کیا ’’میں ٹرین پکڑ کر گھر واپس ائی ۔

میرے شوہر کی مزاج ناساز ہے‘‘۔ دہلی پولیس کے ناکام ہوجانے کے بعد دہلی ہائی کورٹ نے پچھلے سال مئی کے مہینے میں لاپتہ طالب علم کا کیس سی بی ائی کے حوالہ کیاتھا۔احتجاجیوں میں شامل جے این یو طالب علم راما ناگا نے کہاکہ ’’ سی بی ائی نے کوئی توجہہ نہیں دی ہے۔

انہوں نے اب تک نجیب کے لاپتہ ہونے سے قبل رات میں اس پر حملہ کرنے والے اے بی وی پی کارکنوں سے پوچھ تاچھ تک نہیں کی۔مذکورہ سی بی ائی کی لاپرواہی نہایت قابل مذمت ہے‘‘