سنگھ کے ایک سینئر منتظم نے کہاکہ بھگوا تنظیم کی یہ پہل بی جے پی اور سنگھ کے درمیان جومضبوط رابطے کی کڑی بنی ہے اس کو متاثر ہونے سے بچانے کی طرف ایک اشارہ ہے ۔
نئی دہلی۔ بی جے پی کی نظریاتی سرپرست آر ایس ایس نے مہارشٹرا کے ناگپور میں اپنی تین روزہ سالانہ اجلاس کے ہفتہ کے روز جوں کا توں ختم ہوگیا‘ اجلاس میں صرف ہندوستان کی لسانی تہذیب کے تحفظ پر بات کی گئی ۔
جبکہ اسی روزتیس ہزار کے قریب کسان اپنے حقوق کے لئے بی جے پی کی برسراقتدار ریاست میں ہزاروں کیلومیٹر کی پیدل مسافت طئے کرکے پہنچے تھے‘ احتیاطی کے ساتھ پیش کی گئی قرارداد بڑے پیمانے پر سیاسی ثابت ہوئی جس میں متنازعات حوالوں کو پوری طرح نظر انداز کردیاگیاتھا۔پچھلے سالوں میں یہی آر ایس ایس بڑے پیمانے پر فیصلے لینے والا پلیٹ فارم تھا‘ اکھل بھارتیہ پرتنیدھی سبھا نے بہت سارے سیاسی مسائل کی سیاسی شروعات کی تھی‘ جس میں مغربی بنگال اور کیرالا میں آر ایس ایس کیڈر کے ساتھ تشدد‘ نسلی بنیاد پر استحصال سے ہونے والی سماجی عدم توازن جیسے مسائل شامل تھے۔
تاہم ایک سال بعد ملک میں عام انتخابات ہونے والے ہیں‘ تو سنگھ نے ایسے مسلئے کا انتخاب کیاہے جس سے وہ راست طور پر حکومت کے مدمقابل نہیںآسکے گا۔آر ایس ایس کے ایک سینئر ناظم نے کہا ہے کہ یہ اقدام تنظیم اور بی جے پی کے درمیان میں توانائی اور ائیڈیا کو مزیدمستحکم کرنے کی طرف اشارہ ہے۔ اپنی شناخت نہ بتانے کی شرط مذکورہ ناظم نے کہاکہ’’ سمجھا یہ جارہا ہے کہ نریندر مودی کی زیرقیادت بی جے پی آر ایس ایس کے نظریہ پر مشتمل ایک سیاسی لینڈ اسکیپ تیار کررہی ہے ‘ مثلاً انسانیت‘ موافق عوام پالیسی کے لئے قطار میں کھڑے آخری شخص تک کی خدمت ‘تاکہ ماحولیاتی نظام کو اس میں شامل کیاجاسکے‘‘۔ چونکہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے درمیان میں اتحاد زیادہ وقت سے چل رہا ہے مگر حالیہ عرصہ میں پچھلے چارسالوں کے دوران جو آ رایس ایس کے الحاق نے مزدوروں اور اقتصادی شعبہ میں کام کررہی ہے ‘ جس نے نوٹ بندی پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے ‘ نہ غیرملکی سرمایہ کاری کو منظوری دی اور فارم بحران جاری ہے۔
یہ ایسے موضوعات ہے جو آ رایس ایس سربراہ موہن بھگوات کی سالانہ دسہرہ تقریب کی تقریر کا مرکز عنوان رہے مگر قرارداد میں ان کو شامل نہیں کیاگیا۔جہاں پر سنگھ کے سونچ کسانوں کی زبوں حالی اور پیش ائے بینک اسکام کے برخلاف تھی ‘ وہیں اجلاس کے دوران سریش بھیاجی جوشی کو اگلے تین سالوں کے لئے دوبارہ منتخب کرلیاگیا‘ او رجواب میں کہاگیا ہے کہ استحکام کو یقینی بنانے کے لئے ضروری ہے۔انہوں نے کہاکہ کوئی بھی حکومت کسانوں کی مصیبتوں میں حساس نہیں رہ سکتی۔
معاشی پالیسیوں پر تنازعات پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ڈھانچے میں رکھ صحت مند اعتراض قابل قبول ہوگا۔جوشی نے کہاکہ ’’ ایک گھر میں تمام بھائی ایک جیسے نہیں ہوتے۔ ان کی ذہنیت‘ عدالت وغیرہ مختلف ہوتی ہیں۔ ان کے رائی الگ ہوسکتی ہے مگر ان کا احساس جدا نہیں ہوسکتا‘‘۔ تاہم آر ایس ایس کی یقین دہانی کے لئے یہ جو زمینی حقیقت کے بعید ہے ایک ایسا پیغام پریس کو جاری کیاگیا کہ تنظیم اپنے مطالبات کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔
جوشی نے کہاکہ حکومت ہوسکتا ہے کچھ عاجلانہ اقدام اٹھائے گی مگر آر ایس ایس جو ایک سونچ اور نظریات کے تحت چلائی جاتی ہے اپنے مطالبات کو بناء کسی سمجھوتہ کے جاری رکھے گی۔آر ایس ایس کے ایک او رکارکن نے کہاکہ حکومت نے بڑے پیمانے پر تنظیم کے مطالبات کو قبول کیا ہے ‘ بی جے پی نے متنازع مقام پر رام مندر کی تعمیر کی حمایت میں جواب دیا ہے‘ اس شخص نے بھی اپنی شناخت پوشید رکھنے کی شرط پر کہاکہ’’ پالیسی تشکیل میں بڑی لچک کی حکومت کو منظوری دینے کے ساتھ‘ آر ایس ایس کی اس میں سرپرستی کے ساتھ نگران کارکی بھی ذمہ داری رہے گی‘‘