نابالغ کی من گھڑت کہانی اور بچی کی تصوئیر سے سلجھا کتھوا کیس

جموں۔کتھوا میں ایک اٹھ سال کی معصوم کے ساتھ عصمت ریزی اور اس کے بعد بے دردی سے معصوم کے قتل کا معاملہ پلٹ گیاہوتا جس میں اگر ایک ہی ملزم ہوتا( وہ بھی نابالغ)لیکن تفتیش کرنے والی ٹیم کی محنت او رمتاثرہ کی تصوئیر نے اس کیس سے پردہ اٹھایا۔

دراصل اس کیس میں ملوث جموں کشمیر پولیس کے دوجوان اور اہم ملزم نے نابالغ ملزم کو ایک کہانی رٹائی تھی‘ جس میں وہ خود کوہی ملزم کے طور پر پیش کررہاتھا۔ جب معاملہ پولیس کی تحقیقاتی ٹیم کے پاس گیا توبابالغ نے ایک ہی کہانی بار بار دہرائی۔

اس نے کہاکہ’’ میں بچی کو جنگل سے اغوا کرنے کے بعد قتل سے پہلے کئی دنوں تک ایک گاؤ شالہ ( مندر کے پاس)میں رکھا۔میں نے اس کے ہاتھ اور منھ باندھ تھا۔

یہ گاؤ شالہ میرے ماماسانجی رام کا ہے۔ واضح رہے کہ سانجی رام بھی کیس میں ملزم ہے۔تحقیقاتی ایجنسی نے نابالغ کے دعوؤں کی جانچ کی

۔ ایک شخص کے ہاتھ اور منھ باندھ دیاگیا اور گاؤ شالہ میں بندھ کرنے کے بعد اس کوچلانے کے لئے کہا۔ چلانے کی آواز اس پاس کے گھر وں تک آرہی تھی۔ اس مطالب کہ اگر متوفی گاؤ شالہ میں ہوتی تو پڑوسیوں کو فوری طور پر اس کا پتہ چل جاتا۔ وہیں بچی کے کلائیوں پر کوئی زخم کے نشان نہیں ہیں۔

اس کا مطلب ہاتھ بندھے ہوئے نہیں تھے ۔ یہ کہانی جموں کشمیر پولیس کے سب انسپکٹر انند دتا نے بنی تھی۔ اس میں ان کا ایک ساتھ کانسٹبل تلک راج بھی شامل تھا۔گرفتاری کے بعد دونوں کو بھی ملزم مقرر کیاگیاتھا۔

تفتیش کرنے والے اداروں کو نابالغ کی کہانی پر اسوقت شک ہوا جب ایک گواہ کو نابالغ نے مبینہ طور پر کہاتھا کہ’’ ماما کی پولیس میں سٹینگ ہے‘۔

وہیںآنند دتہ کے متوفی کے کپڑوں پر لگے خون کے دھبوں او رمٹی کودھویاتھا۔ جب فارنسک سائنس ماہرین نے کہاکہ تفتیشی ایجنسی سے کہاکہ متوفی کے کپڑوں پر خون او رمٹی کے نشان نہیں ہیں تو ثبوت مٹانے کی کوشش کا شک ہوا اور دوسری ملزمین کے شامل ہونے کی بات سامنے ائی