نئے صدر جمہوریہ کا 17 جولائی کو انتخاب ‘ کیا مجلس بی جے پی امیدوار کی تائید کریگی ؟

ٹی آر ایس کی این ڈی اے امیدوار کو تائید سے سیاسی حلقوں میں قیاس آرائیاں۔ جماعت نے ابھی اپنا موقف واضح نہیں کیا ۔سیاسی اور عوامی حلقوںمیں تجسس

حیدرآباد ۔ یکم جولائی (سیاست نیوز) صدرجمہوریہ کے عہدہ کے لئے 17 جولائی کو رائے دہی مقرر ہے اور تلنگانہ کی تمام بڑی جماعتوں کا موقف واضح ہوچکا ہے لیکن ٹی آر ایس کی حلیف جماعت مجلس نے ابھی تک اپنے موقف کی وضاحت نہیں کی۔ صدارتی دوڑ میں این ڈی اے کے امیدوار رامناتھ کووند اور یو پی اے کی امیدوار میرا کمار میدان میں ہیں۔ تلنگانہ کی برسر اقتدار پارٹی ٹی آر ایس نے رامناتھ کووند کی تائید کا اعلان کرتے ہوئے اِس بات کا دعویٰ کیاکہ کے سی آر کی تجویز پر وزیراعظم نریندر مودی نے دلت قائد کو صدرجمہوریہ کے عہدہ کا امیدوار نامزد کیا ہے۔ کانگریس تلنگانہ میں تلگودیشم اور سی پی ایم کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے جبکہ مجلس کے غیر واضح موقف نے سیاسی جماعتوں اور عوام میں تجسس پیدا کردیا ہے۔ رامناتھ کووند کی امیدواری کے اعلان کے ساتھ ہی مجلس کے صدر اسد اویسی نے اُنھیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ رامناتھ کووند نے مسلمانوں اور عیسائیوں سے متعلق 2010 ء میں بی جے پی ترجمان کی حیثیت سے جو بیان دیا تھا اُسے بنیاد بناکر اسد اویسی نے صدارتی امیدوار نامزد کرنے پر سوال اُٹھائے تھے۔ اب جبکہ مجلس کی حلیف جماعت ٹی آر ایس رامناتھ کووند کے حق میں مہم چلارہی ہے تو کیا مجلس بھی رامناتھ کووند کی تائید کرے گی؟ اِس سوال کا جواب نہ صرف سیاسی جماعتوں بلکہ تلنگانہ اور مہاراشٹرا کی اقلیتوں کو ہے۔ تلنگانہ میں مجلس کے ایک رکن پارلیمنٹ کے علاوہ 7 ارکان اسمبلی اور ایک رکن قانون ساز کونسل ہے۔ جبکہ مہاراشٹرا میں 2 ارکان اسمبلی ہیں۔ کیا دونوں ریاستوں میں مجلس این ڈی اے اور یو پی اے امیدواروں میں سے کسی ایک کی تائید کے بجائے رائے دہی سے غیر حاضر رہے گی؟ موجودہ حالات میں مجلس کے پاس میراکمار کی تائید کے علاوہ کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا کیوں کہ مجلسی قیادت مسلم ۔ دلت اتحاد کے حق میں بارہا اظہار خیال کرچکی ہے۔

 

اگر مجلس کسی بھی امیدوار کی تائید کے بغیر رائے دہی سے غیر حاضر رہے تب بھی این ڈی اے امیدوار کی تائید کی حیثیت سے شمار ہوگا کیوں کہ غیر حاضری کے سبب یو پی اے امیدوار میراکمار کے ووٹ ازخود کم ہوجائیں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مجلس صدارتی چناؤ میں کیا اپنی سرپرست جماعت ٹی آر ایس اور اُس کے قائد کے سی آر کے مشورہ پر عمل کرے گی یا پھر ضمیر کی آواز کی بنیاد پر میراکمار کی تائید کرے گی۔ میراکمار مقبولیت اور تجربہ کے اعتبار سے این ڈی اے امیدوار رامناتھ کووند سے کافی آگے ہیں۔ تلنگانہ کے مسلمانوں کی نظریں مجلس کے فیصلے پر ٹکی ہوئی ہیں اور وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آیا کوئی بھی فیصلہ کہیں بی جے پی کے لئے فائدہ مند نہ ہوجائے۔ بہار، مہاراشٹرا اور اترپردیش کے اسمبلی انتخابات میں مجلس کے حصہ لینے سے بی جے پی کو فائدے کے تناظر میں صدارتی انتخابات میں مجلس کے موقف کو لے کر عوام میں تجسس پایا جاتا ہے۔5 سالہ معیاد کیلئے صدر جمہوریہ کا انتخاب عمل میں آتا ہے اور درمیان میں انہیں صرف مواخذہ کے ذریعہ اس عہدہ سے ہٹایا جاسکتا ہے یا پھر خود صدر جمہوریہ چاہیں تو استعفی پیش کرسکتے ہیں۔ یہ استعفی نائب صدر جمہوریہ کو پیش کرنا ہوتا ہے ۔ صدر جمہوریہ کا انتخاب راست عوام کے ووٹوں سے نہیں ہوتا بلکہ یہ انتخاب الیکٹورل کالج کے ذریعہ ہوتا ہے ۔ الیکٹورل کالج ارکان پارلیمنٹ ( لوک سبھا اور راجیہ سبھا دونوں ) اور ریاستی قانون ساز اسمبلی کے منتخبہ ارکان پر مشتمل ہوتا ہے ۔ ارکان پارلیمنٹ اور ارکان اسمبلی کے ووٹوں کی قدر کا تعین ریاستوں کی آبادی کے اعتبار سے کیا جاتا ہے ۔ فی الحال 1971 کی مردم شماری کی بنیاد پر ریاستوں کی آبادی کو شمار کیا جاتا ہے ۔ آئندہ 2031 کی مردم شماری کے بعد ریاستوں کی آبادی اور ووٹوں کی قدر کا از سر نو تعین کیا جاسکے گا اس وقت تک 1971 کی مردم شماری کی بنیاد پر ہی یہ قدر طئے کی جاتی ہے ۔ اب 17 جولائی جو کو صدارتی انتخاب ہونے والا ہے اس میں این ڈی اے نے رام ناتھ کووند کو اپنا امیدوار نامزد کیا ہے جبکہ یو پی اے نے سابق اسپیکر لوک سبھا میرا کمار کو میدان میں اتارا ہے ۔ ہندوستان میں الیکٹورل کالج کی جملہ تعداد 10,98,882 ووٹوں کی ہے ۔ این ڈی اے کے پاس جملہ 5,32,037 امیدوار ہیں ۔ وائی ایس آر کانگریس نے این ڈی اے امیدوار کی تائید کا اعلان کیا ہے ۔ اس کے ووٹوں کی قدر 16,848 ہے جبکہ ٹی آر ایس کے ووٹوں کی قدر 22,048 ہے ۔ این ڈی اے کے ساتھ وائی ایس آر کانگریس اور ٹی آر ایس کے ووٹوں کو مجتمع کیا جائے تو اسے جملہ 5,70,933ووٹ حاصل ہونگے جبکہ اس کے امیدوار کی کامیابی کیلئے جملہ 5,49,441 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔ وائی ایس آر کانگریس اور ٹی آر ایس کی تائید کی وجہ سے صدارتی انتخاب میں این ڈی اے کو سبقت مل گئی ہے ۔ تاہم یو پی اے بھی اس انتخاب میں مقابلہ کے فیصلے پر اٹل ہے ۔