14 ارکان خاندان کو ہلاک کرنے والے نوجوان کی زخمی بہن کا ہاسپٹل میں پولیس کو بیان
تھانے ۔ 2 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) تھانے میں ایک نوجوان کے ہاتھوں اپنے ہی خاندان کے 14 ارکان کو ہلاک کرنے کے وحشیانہ واقعہ میں زندہ بچ جانے والی 22 سالہ لڑکی صوفیا بارمر نے اس رونگھٹے کھڑا کردینے والی داستان یاد دلاتے ہوئے کہا کہ اس نے دیکھا کہ اس کا بھائی خون میں لت پت چھرا لیکر وحشیانہ انداز میں اس کی طرف آگے بڑھ رہا تھا اور کہہ رہا اب تیری باری ہے۔ صوبیا کے بھائی 35 سالہ حسنین واریکر نے اپنے ماں باپ، بیوی، بچوں کے بشمول اپنے ہی خاندان کے 14 افراد کو تھانے کسرواڑہ والی علاقہ میں واقع گھر میں مشروب کے ساتھ بیہوشی کی دوا پلانے کے بعد ایک کے بعد دیگرے گلا کاٹ کر ہلاک کردیا تھا۔ بعدازاں خودکشی کرلیا تھا۔ صوبیا نے جو زخموں کے علاج کیلئے ہنوز ہاسپٹل میں زیرعلاج ہے، تھانے پولیس کی ایک تحقیقاتی ٹیم کو دل دہلادینے والی کربناک داستان سناتے ہوئے کہا کہ اس کا بھائی خون میں لت پت چھرا لیکر اس کی سمت آگے بڑھ رہا تھا اور چیخ رہا تھا کہ وہ خاندان کے تمام افراد کو ہلاک کرچکا ہے اور اب اس (لڑکی) کی باری ہے۔
تحقیقات میں مصروف پولیس ذرائع نے کہا کہ لیکن قسمت میں کچھ اور تھا کہ حسنین جیسے ہی اپنی چھوٹی بہن کے قریب پہنچا اس نے بھائی کو ڈھکیل کر دروازہ بند کردیا لیکن جب تک حسنین اس کے گلے پر وار کرتے ہوئے زخمی کردیا تھا۔ لڑکی کے بائیں ہاتھ کی انگلیوں پر بھی زخم آئے۔ صوبیا نے اتوار کے واقعات کا تفصیلی تذکرہ کیا کہ آیا کس طرح خاندان کے تمام افراد کو بھائی کی طرف سے دی گئی دعوت کیلئے جمع ہوئے تھے اور آرام کیلئے بستر پر لیٹ گئے کہ حسنین ہلاکتوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ صوبیا نے دعویٰ کیا کہ پچھلے پہر 3 بجے شب اس نے کچھ آوازیں سنی اور مدھم روشنی میں دیکھا کہ اس کا بھائی ایک کے بعد دیگرے تمام ارکان خاندان کا گلا کاٹتے ہوئے قتل کررہا ہے۔
جب وہ اس کے قریب پہنچنے لگا وہ دروازہ اندر سے بند کرچکی تھی اور پڑوسیوں کو آواز دی جو بعد میں اس کو بچانے کیلئے پہنچے اور دواخانہ کو منتقل کیا۔ اس نے پولیس سے کہا کہ ’’بعد میں مجھے پتہ چلا کہ میرے بھائی نے خودکشی کرلی‘‘۔ اس دوران اس خاندان کے ایک قریبی رشتہ دار لیاقت دھولے نے پی ٹی آئی سے کہا کہ ’واریکر‘ تھانے میں کونکنی مسلمانوں کے 42 دیہاتوں میں ایک انتہائی قابل احترام خاندان تھا۔ اس خاندان کا بہت احترام کیا جاتا ہے۔ لیاقت نے مزید کہا کہ ’’ایک بات میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ اللہ کی مرضی تھی کہ وہ (لڑکی) سارا قصہ بیان کرنے کیلئے زندہ بچ گئی جس کی وجہ سے شاید شیطان نے اس کو زندہ بچ جانے کیلئے چھوڑ دیا‘‘۔ قبل ازیں جوائنٹ کمشنر پولیس اشوتوش دمبرے نے کہا کہ جائیداد کا تنازعہ، نفسیاتی مسائل وغیرہ جیسے تمام پہلوؤں سے اس واقعہ کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔ حسنین جو کامرس گریجویٹ تھا، اس کو کوئی مستقل ملازمت نہیں تھی چنانچہ وہ نوی ممبئی میں سی اے کے ایک ادارہ میں انکم ٹیکس سے متعلق دستاویزات تیار کیا کرتا تھا۔