شمالی کوریائی قائد کا بچکانہ ریمارک، امریکی صدر کااحمقانہ جواب
کم جونگ نوٹ کریں کہ میرا بٹن کام بھی کرتا ہے
وائیٹ ہاؤس پریس سیکریٹری سارہ سینڈرس کی پریس کانفرنس
واشنگٹن ۔ 3 جنوری ۔(سیاست ڈاٹ کام) امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کے قائد کم جونگ اُن کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے کہا کہ جونگ جس نیوکلیئر بٹن کی بات کررہے ہیں ، میرے پاس اُس سے زیادہ بڑا اور طاقتور بٹن موجود ہے۔ اس کے باوجود بھی میں یہ کہنا چاہوں گا کہ شمالی کوریا کو اُس کے اٹامک پروگرام سے باز رکھنے دیگر تمام متبادل بھی میری میز پر موجود ہیں۔ یاد رہے کہ نئے سال کے موقع پر کم جونگ اُن نے واضح طورپر کہا تھا کہ شمالی کوریا کے پاس ایسے میزائیلس ہیں جو امریکہ میں کہیں بھی مار کرسکتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اُنھوں نے دھمکی آمیز لہجہ میں یہ بھی کہا تھا کہ نیوکلیئر بٹن اُن کی میز پر ہی ہے جسے وہ جب چاہے دبا سکتے ہیں۔ یہاں اس بات کاتذکرہ بھی دلچسپ ہوگا کہ گزشتہ سال کے اواخر میں ٹرمپ اور کم جونگ کے درمیان لفظی جھڑپوں کا طویل سلسلہ چلا تھا جہاں انھوں نے ایک دوسرے کا مضحکہ بھی اُڑایا تھا ۔ ٹرمپ نے اپنے حالیہ ٹوئیٹ میں کہا کہ شمالی کوریا جیسے فاقہ زدہ ملک کے قائد کو کوئی یہ سمجھانے کی کوشش کرے گا کہ میرے پاس بھی نیوکلیئر بٹن ہے جو کم جونگ کے کنٹرول والے بٹن سے کہیں زیادہ بڑا اور طاقتور ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ بٹن کام بھی کرتا ہے۔ کم جونگ نے اپنے ٹیلی ویژن خطاب کے دوران کہا تھا کہ امریکہ کا بیشتر حصہ شمالی کوریا کے میزائلوں کی زد میں ہے۔بہرحال امریکہ نے شمالی کوریا کو ایک عالمی خطرہ سے تعبیر کیا اور دیگر ممالک سے خواہش کی کہ وہ شمالی کوریا پر دباؤ ڈالتے ہوئے اُسے نیوکلیئر توانائی کا حامل ملک بننے سے روکیں۔ وائیٹ ہاؤس پریس سکریٹری سارہ سینڈرس نے اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہاکہ اس وقت امریکہ کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ دیگر ممالک کو باور کروائے کہ شمالی کوریا پر زیادہ سے زیادہ دباؤ بنانے کا سلسلہ جاری رکھا جائے کیونکہ صرف یہی ایک طریقہ ہے جس کے ذریعہ شمالی کوریا کو اُس کے تخریبی ارادوں سے باز رکھا جاسکتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک کی توجہ بھی امریکہ اپنی جانب مبذول کرتے ہوئے انھیں شمالی کوریا پر دباؤ بنانے کیلئے زور دے رہا ہے ۔ سارہ سینڈرس نے کہا امریکہ کے پاس بھی تمام متبادل موجود ہیں۔ قبل ازیں ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکی قیادت والی تحدیدات اور دیگر دباؤ سے شمالی کوریا کی جارحیت کو کچلا جاسکتا ہے جس کے اثرات سامنے آرہے ہیں کیونکہ حال ہی میں کم جونگ نے یہ بھی بیان دیا ہے کہ شمالی کوریا جنوبی کوریا کے شہر پیونگ چانگ میں منعقد شدنی سرمائی اولمپکس میں حصہ لے گا جس کا جنوبی کوریا نے خیرمقدم کیا اور شمالی کوریا کے ساتھ ایک اعلیٰ سطحی مذاکرات کے انعقاد کی تجویز بھی پیش کی ۔ سارہ سینڈرس نے مزید کہا کہ تازہ ترین صورتحال سے امریکہ اور جنوبی کوریا کے تعلقات پر کوئی منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے ۔ ہم ہمیشہ کی طرح جنوبی کوریا کے ساتھ کام کرتے رہیں گے اور شمالی کوریا پر دباؤ بنانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے ۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال فروری سے شمالی کوریا نے اپنے میزائیل پروگرام میں اضافہ کردیا ہے جہاں 23 میزائیلس داغے گئے ۔ 29 نومبر کو شمالی کوریائی قائد نے کہاکہ اُن کے ملک کو نیوکلیئر توانائی کے حامل ملک کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔یہ بات انھوں نے بین براعظمی بالسٹک میزائل ٹسٹنگ کے بعد کہی تھی جو اُن کے مطابق امریکہ کو بھی نشانہ بناسکتا ہے۔ بہرحال گزشتہ سال ٹرمپ اور جونگ کے درمیان لفظی جھڑپوں کاسال رہا جہاں ٹرمپ نے کم جونگ کو ’’راکٹ مین‘‘ بھی کہا ۔ امریکہ اور اُس کے حلیف ممالک بشمول جاپان اور جنوبی کویا نے ملکر شمالی کوریا پر زبردست معاشی دباؤ ڈالا ہے تاکہ شمالی کوریا مزید کوئی نیوکلیئر ٹسٹنگ نہ کرے۔ امریکہ نے شمالی کوریا کو جس طرح ’’تر نوالہ‘‘ سمجھا تھا ، ڈونالڈ ٹرمپ کی یہ قیاس آرائیاں غلط ثابت ہوئیں کہ وہ شمالی کوریا کو ڈرا دھمکاکر اپنا حامی بنالیں گے تاہم شمالی کوریا نے بھی ٹرمپ کو دھول چاٹنے پر مجبور کردیا۔