ینگون ۔ یکم ؍ فبروری (سیاست ڈاٹ کام) میانمار کی پارلیمان کے نئے اجلاس میں سینکڑوں منتخب ارکان 50 سالوں میں ہونے والے پہلے جمہوری انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کا فیصلہ کریں گے۔ موجودہ اسمبلی کے ارکان کی اکثریت آنگ سان سوچی کی پارٹی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) سے تعلق رکھتی ہے۔ این ایل ڈی نے گذشتہ سال نومبر میں ہونے والے انتخابات میں 80 فیصد نشستیں حاصل کی تھیں۔ لیکن میانمار کے آئین کے تحت پارلیمان کی تمام نشستوں کا 25 فیصد فوج کے لیے مختص ہے، جو ملک کی اہم وزارتیں حاصل کرنے کا اختیار بھی رکھتی ہے۔ نئی پارلیمان کے ابتدائی کاموں میں نئے صدر کا انتخاب بھی شامل ہے۔ موجودہ صدر تھین سین کی مدت صدارت مارچ میں ختم ہورہی ہے۔ لیکن سوچی جو 15 سال نظر بند رہیں صدارت کے عہدے کے لیے کھڑی نہیں ہوسکتیں کیونکہ ان کے بچے برطانوی شہری ہیں اور آئین کے تحت ایک برطانوی شہری کے والدین ملک کے صدر نہیں ہوسکتے۔ لیکن سوچی پہلے ہی اشارہ دے چکی ہیں کہ وہ نئے سربراہ کے ذریعے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے میں کامیاب رہیں گی۔ آنگ سان سوچی کی پارٹی این ایل ڈی کو گذشتہ بیس سالوں سے زیادہ ملک دشمن کے طور پر سمجھا جاتا رہا ہے، اور اس کے کارکنوں اور رہنماؤں کو گرفتار کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن اب ان کی پارٹی کے سینکڑوں ارکان رکن پارلیمان کا حلف اٹھا چکے ہیں، حتیٰ کہ فوج کا 25 فیصد کوٹہ پورے ہونے کے باوجود بھی این ایل ڈی کی اکثریت بر قرار رہے گی۔ ملک کے اگلے صدر کی شناخت کو ابھی تک صیغہ راز میں رکھا جارہا ہے۔سوچی صرف اس صورت میں صدر بن سکتی ہیں اگر کسی ڈیل کے تحت آئین میں تبدیلی کردی جائے۔