جینیوا ۔ 5 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) ان ہزاروں روہنگیاؤں کو جو اپنے ٹوٹے پھوٹے خستہ اور جلے ہوئے گھروں کو جرأتمندی دکھاتے ہوئے واپسی کی کوشش کررہے ہیں، انہیں روکنے پر حکومت میانمار کی نیت پر سوالات کھڑے ہوگئے ہیں جبکہ حکومت میانمار نے کہا ہیکہ وہ واپس ہونے والے روہنگیاؤں کا خیرمقدم کرے گی جو تقریباً سات لاکھ ہیں جنہوں نے اگست میں بنگلہ دیش میں پناہ لی تھی لیکن ابھی تک صرف 200 سے بھی کم افراد نے واپسی کی ہے جو شمالی راکھین ریاست میں ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے حقوق انسانی زید رعدالحسین نے کہا کہ ان کے دفتر نے تاحال صرف 58 روہنگیاؤں کی رپورٹ وصول کی ہے جنہیں ریاست راکھین کو واپسی پر حراست میں لے لیا گیا ہے اور ان پر غیرضروری الزامات وضع کئے گئے ہیں۔ اس کے بعد انہیں صدر کی جانب سے معافی دی جائے گی جہاں سے وہ ’’بقول میانمار حکومت کے‘‘ استقبالیہ مرکز پر اس حالت میں پہنچائے جائیں گے کہ جس سے ظاہر ہوکہ نظم و نسق نے انہیں گرفتار کیا ہو‘‘۔ زیدالحسین نے یہ بات بتائی۔ ’’حکومتی نمائندوں نے کئی بار یہ بات دہرائی کہ میانمار حکومت واپس ہونے والوں کو قبول کرنے اور ان کا خیرمقدم کرنے تیار ہے لیکن انتہائی قلیل تعداد میںواپس ہونے والوں کو بھی وہ حراست میں لے
رہی ہے۔ یاد رہیکہ میانمار حکومت نے بنگلہ دیش حکومت سے حلفنامہ پر دستخط کئے ہیں اور اقوام متحدہ نے بڑے پیمانہ پر روہنگیاؤں کی واپسی کیلئے مکمل فریم ورک تیار کیا ہوا ہے جبکہ صرف مٹھی بھر روہنگیاؤں نے واپسی کیلئے ہمت جٹا پائی جبکہ سینئر عہدیدار نے ریاست راکھین کو بازآباد کاری کیلئے نہایت خطرناک قرار دیا ہے۔ واضح رہیکہ روہنگیاؤں نے اگست 2017ء میں ظالم اور وحشی، درندہ صفت فوج کی لرزہ براندام کرنے والی حرکتوں سے تنگ آ کر بشمول سیکوریٹی فورسیس کی اجتماعی عصمت ریزی اور بے رحم دہشت گردی مہم جس کے کئی گواہ اس وقت موجود ہیں، اس کی گواہی دی ہے۔ سب سے اہم اقوام متحدہ نے جو زیادہ تر خوابیدہ رہتی ہے، اس نے بھی اس سارے معاملات کو بہ چشم خود مشاہدہ کرنے کے بعد اسے ’’نسل کشی‘‘ سے تعبیر کرنے پر مجبور ہوئی۔ زیدالحسین نے کہا کہ اس بات کا واضح ثبوت موجود ہیکہ ریاست راکھین میں مظالم ابھی بھی جاری ہیں جہاں دردناک و بہیمانہ قتل اور روہنگیاؤں کے گھروں کو جلاکر خاکستر کرنا شامل ہے۔ علاوہ ازیں اس سال 2018ء کو بھی ریاست راکھین سے 11 ہزار روہنگیا فرار ہونے پر مجبور ہوئے ہیں جس سے میانمار حکومت کی مظالم کی سرپرستی کا پتہ چلتا ہے لیکن بے حیا میانمار حکومت کے نمائندہ نے اقوام متحدہ کے چیف زیدالحسین کی رپورٹ کو ’’صریح غلط‘‘ قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ زیدالحسین کی وجہ سے بازآباد کاری میں رکاوٹ ہورہی ہے جو قانونی طور اپنے لٹے پٹے خستہ حال گھروں کو واپس ہونا چاہتے ہیں۔