میانمار میں قیدصحافیوں کے لئے زبردست احتجاج

یانگون۔ اتوار کے روز درجنوں لوگ رائٹرس کے دوصحافیوں کی قید کے خلاف سڑکوں پر اترکر زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا‘ اور اس بات کا اشارہ دیا کہ میانمار میں سیول حکمرانی کے باوجود اظہار خیال کی آزادی کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

سینکڑوں کی تعداد میں نوجوان ‘ جہدکار او رصحافی سڑکوں پر اتر کر احتجاج کے ذریعہ دو قیدصحافیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا‘ اور مذکورہ دونوں صحافیوں کے خلاف سنائی گئی سات سال قید کی سزا کے خلاف انتباہ دیتے ہوئے اسی ماہ عوامی حقوق کی جانکاری مہم چلائیں گے۔

میانمار کے بڑے شہر یانگون میں احتجاجی جس میں ہائی اسکول طلبہ بھی شامل تھے پرامن احتجاجی ریالی نکالی ‘ او رہاتھوں میں مذکورہ دونوں صحافیوں کی گرفتاری کے خلاف نعروں پر مشتمل پلے کارڈس تھامے گرفتاریوں کے خلاف نعرے بھی لگارہے تھے۔

پولیس کی معمولی جمعیت نے یہ بھی دیکھا کہ احتجاجی سیاہ غبارے ہوا میں چھوڑے جس پرتحریری تھا کہ’’وا لون‘ اور کیاؤ سوی اوو کو رہاکرو‘‘۔

ان دونوں صحافیوں کو3ستمبر کے روز ملک کے سخت ترین قانون کے تحت گرفتار کرلیاگیاتھاجس کے متعلق کہاجارہا ہے کہ میانمار میں یہ ڈیموکرٹیک آزادی کا ٹسٹ تھا۔

احتجاج میں شامل ایک صحافی کے رائٹرس کے صحافیوں کو سنائی گئی قید کی سزا پر کہاکہ ’’ وہ لوگ اپنا کام کررہے تھے‘‘کیامیانمار میں رپورٹنگ پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔انہو ں نے کہاکہ’’ صحافت کی آزادی پر کارضرب کا مطلب ڈیموکرٹیک پس وپشت ڈال دیاجارہا ہے‘‘۔

اقوام متحدہ نے بھی گرفتاری کے فیصلے کی سخت مذمت کی ہے۔

گرفتار شدہ رپورٹرس سکیورٹی فورسس اور مقامی بدھسٹوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے دس روہنگی مسلم مرد اور بچوں کے قتل کی رپورٹنگ کررہے تھے‘ جن پر پچھلے سال اگست میں فوجی چوکیوں پر حملے کے بعد کاروائی کرتے ہوئے قتل کردیاگیاتھا۔