روہنگیا پناہ گزینوں کی اکثریت کے پاس کوئی دستاویزی ثبوت نہیں
کوکس بازار ۔ 3 اکٹوبر (سیاست ڈاٹ کام) بنگلہ دیش کے علاقے کوکس بازار میں پناہ لینے والے پانچ لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمانوں میں سے ایک عبداللہ کا کہنا ہے کہ سب چیزیں نذر آتش کی دی گئی تھیں، حتی کہ انسان تک۔ اس کے بقول کسی بھی شخص کے پاس اپنی کوئی شناختی دستاویز بچی ہی نہیں تو پھر وہ تصدیق کے لیے کیا جمع کرائے گا۔ خبر رساں اداروں سے گفتگو کرتے ہوئے دیگر مہاجرین نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا اور وہ میانمار کے حکومت کے ایسے دعوں سے مطمئن نہیں۔قبل ازیں پیر دو اکتوبر کے روز میانمار کے ایک سینیئر وزیر نے اشارہ دیا تھا کہ ان کی حکومت پناہ کی تلاش میں بنگلہ دیش جانے والے لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کو واپس میانمار میں آباد کرنے کو تیار ہے۔ بنگلہ دیشی وزیر خارجہ اے ایچ محمود علی نے میانمار کی نوبل امن انعام یافتہ خاتون رہنما آنگ سان سوچی کے ایک نمائندے کے ساتھ دارالحکومت ڈھاکہ میں رواں ہفتے کے آغاز پر بات چیت کے بعد کہا تھا کہ روہنگیا مسلمانوں کی واپسی کے لیے میانمار کی جانب سے ایک منصوبہ پیش کیا گیا ہے۔ بنگلہ دیشی وزیر خارجہ نے مزید بتایا کہ اس سلسلے میں ایک گروپ تشکیل دے دیا گیا ہے، جس کے ارکان روہنگیا کی واپسی کے عمل کو آگے بڑھائیں گے۔اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر ایک بنگلہ دیشی اہلکار نے منگل کے روز کہا ہے کہ منصوبوں کے باوجود یہ ایک طویل اور پیچیدہ مرحلہ ہے۔ اس کے بقول بنگلہ دیش میں پچھلے پانچ ہفتوں کے دوران پہنچنے والے پانچ لاکھ سے زائد مہاجرین کے علاوہ تین لاکھ ایسے تارکین وطن بھی ہیں، جو گزشتہ برسوں کے دوران پناہ کی تلاش میں بنگلہ دیش آئے تھے۔ تاہم میانمار حکومت صرف ان مہاجرین کو واپس لینے کے لیے تیار ہے، جو اکتوبر 2016 کے بعد بنگلہ دیش پہنچے۔ اس اہلکار نے بتایاکہ ہم یہ بتا چکے ہیں کہ اکثریتی روہنگیا مسلمانوں کے پاس کوئی دستاویز نہیں اور اسی لیے یہ مرحلہ ذرا نرم اور لچک کے ساتھ ہی پورا کیا جا سکے گا۔ اس نے مزید بتایا کہ مہاجرین کی تصدیق کے عمل میں کون شامل ہو گا، اس کا فیصلہ میانمار کی حکومت کرے گی۔ ڈھاکہ حکومت نے البتہ اس عمل میں بین الاقوامی ایجنسیوں کو شامل کرنے کی بات کہی تھی۔