مہارشٹرا میں دلت بنام اعلی ذات۔ شکیل شمسی

پہلی جنوری کو جب دنیا نئے سال کا کشن منانے میں لگی تھی تو مہارشٹرا کے تاریخی شہر پونہ کے قریب واقع گاؤں میں ہندوتووادی طاقتیں دلتوں پر حملہ کررہی تھیں۔ دلتوں کی خطا صرف اتنی تھی کہ وہ دوسوسال پہلے حاصل ہونے والی فتح کا جشن منانے کے لئے بھیما کورے گاؤں میں اکٹھا ہوئے تھے۔ واضح ہوکہ 1818میں پہلی جنوری کو پونے کے بھیما کورے گاؤں میں ہی مہارشٹرا برہمن طبقے کی پیشوا سرکارکی افواج کو انگریزوں کی اس ریجمنٹ نے شکست دی تھی جو ماہار ذات کے دلتوں پر مشتمل تھی۔

تاریخی حوالوں کے مطابق اس وقت پونے پر ایسٹ انڈیا کمپنی کا قبضہ تھا جس کو ختم کرنے کے لئے برہمن ذات کے مراٹھا حکمراں باجی راؤ دوم نے 28ہزار لوگوں پر مشتمل فوج روانہ کی جس کا سامنا انگریزوں کی ممبئی نیٹوے انفارانٹری بٹالین سے ہوا جو دلت سپاہیوں پر مشتمل تھی۔ اس جنگ میں دلتوں نے ہندوستان میں ایک نئی تاریخ رقم کی اور اعلی ذات کے خلاف جنگ کرنے کی جرات کی ورنہ انگریزں کے آنے سے قبل تک دلتوں کو نہ تو فوج میں جگہ تھی اور نہ ہ ہی کسی دلت کو اس بات کی اجازت تھی کہ وہ ہتھیار رکھ سکے۔منوسمرتی کے قانون کے مطابق کوئی دلت نہ تو اعلی ذات کی بستیوں میں رہ سکتا تھا اور نہ ہی اس کو اپنے اور اپنے بچوں کی حفاظت کے لئے ہتھیار رکھنے کی اجازت تھی۔

منوسمرتی کے قانون کے مطابق کوئی دلت نہ تو اعلی ذات کی بستیوں میں رہ سکتا تھا اور نہ ہی اس کو اپنے اور اپنے بچوں کی حفاظت کے لئے ہتھیار رکھنے کی اجازت تھی۔ جب انگریز اس ملک میں ائے اور انہوں نے تجارتی سرگرمیوں کو سیاسی عزائم میں بدلا تو انہوں نے ہندوستانیوں کے الگ الگ طبقوں کو اپنے ساتھ لانا کی کوششیں شروع کیں۔ انہوں نے سماجی انصاف کے اعلی معیار قائم کئے اوردلتوں کے بنیادی حقوق دے کر اان کو اپنے پہلو میں بٹھانا شروع کیا۔ انگریزوں کے سلوک سے متاثر ہوکر دلتوں نے کمپنی کی فوج میں شامل ہونے کا فیصلہ بھی کیا اور انگریزوں سے فوجی ٹریننگ لے کر اپنے جس پرہتھیار سجانے کا وہ حق حاصل کرلیا جس سے وہ صدیوں سے محروم تھے۔

ہتھیار اٹھانے کا دوسرا مقصد یہ بھی تھا کہ وہ چاہتے تھے کہ اعلی ذات والو ں کے ساتھ دودو ہاتھ کرکے صدیوں سے ہورہی ناانصافی کا بدلا لے سکیں۔ بھیما کورے گاؤں میں ان کو برہمن مراٹھوں پر جو فتح ملی اسی کا جشن دلت آج تک مناتے ہیں۔ دلت برداری اس فتح کو انگریزوں کی جیت نہیں بلکہ اس کامیابی کا اعلی ذات کے لوگوں پر دلتوں کی فتح سے تعبیر کرتی ہے۔ہر سال دلت کورے گاؤں میں اس یادگار پر گلہائے عقیدت چڑھاتے ہیں جو انگریزوں نے مراٹھوں کے ساتھ جنگ مرنے والے دلتوں کی یاد میں قائم تھی۔

مہارشٹرا کے اعلی ذات کے لوگ دلتوں کے اس اجتماع پر اعتراض جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انگریزوں کے حامیو ں کو یاد کرنا نہیں چاہئے لیکن دلتوں کے لئے یہ جگہ تیرتھ استھان بن چکی ہے ‘چونکہ اس سال دکتوں کی فتح کے دوسوسال پورے ہورہے تھے تو وہاں ڈھائے لاکھ دلت جمع ہوگئے۔ یہ بات اعلی ذات کے ہندوؤ ں کی تنظیموں ہندو ایکتا اگاڑی اور شیوراج پرتھشتھان کو بہت ناگوار گزری اور انہوں نے باقاعدے طو پر بھگوا جھنڈے لے کر ریالی میں شریک ہونے وکے لئے جانے والے دلتو ں پر حملہ کردیاجس کے نتیجہ میں ایک دلت نوجوان کی جان گئی اور بہت سے زخمی ہوگئے۔

اس حملے کے جواب میں دلتوں نے بھی کئی جگہوں پر مظاہرہ کیا اور حالات اتنے خراب ہوگئے کہ مہارشٹرا کے تین درجن شہروں میں دفعہ 144نافذ کرنا پڑی۔افسوس کی بات یہ ہے کہ مہارشٹرا کی حکومت نے دلتوں پر حملہ کرنے والوں کو ہنگامے کا ذمہ دار قراردینے کے بجائے ان دلت او رمسلم لیڈروں کو مورد الزام ٹھرانا شروع کردیا جنھوں نے وہاں تقاریر کی تھیں ۔ حکومت کا بھونپو بن چکے میڈیا نے بھی جگنیش میوانی اور عمر خالد کو تشدد بھڑکانے کا ذمہ دار قراردیا ‘ حالانکہ ان کی تقاریر کے جو ٹکڑے نشر کئے گئے ان میں کوئی بھی بات ایسی نہیں تھی کہ جس سے تشدد بھڑک سکتا ہو۔

ہم کو لگتا ہے کہ ہنگامے کے اصل ذمہ داروں کو نظر انداز کرنے اور دلتوں پر حملہ کرنے والوں کی طرف داری کئے جانے کی وجہہ سے ی مہارشٹرا کے حالات بگڑے ہیں اور اگر حکومت اور میڈیا کارویہ ایسا ہی یکطرفہ اور جانبدارنہ رہاتو شاید ملک کے دوسرے حصوں میں اس قسم کے حالات پیدا ہوجائیں۔ لہذا حکومت اعلی ذات والوں کے ان لوگوں سے سختی برتے جنھوں نے ایک پرامن ریالی پر حملہ کرکے حالات کو خراب کیا۔