دائیں بازوتنظیم کے دو بڑ ے لیڈروں کے خلاف مقدمہ درج ۔ جگنیش میوانی اور عمر خالد کے خلاف بھی شکایت
حیدرآباد۔ 3جنوری(سیاست نیوز) مہاراشٹرا کے ضلع پونا کے قریب میںواقع بھیمہ کورے گاؤں میں یکم جنوری کو پیش آئے تشدد کے واقعات کے دوران ایک 30سالہ دلت نوجوانوں کی موت کے بعد کئے جانے والے احتجاج کی وجہ سے ریاست مہاراشٹرا کے مختلف حصوں بشمول پونا ‘ اورنگ آباد اور ممبئی میںحالات کشیدہ ہوگئے ہیں۔ دلتوں اور پیشواء سماج حامیوں کے درمیان یکم جنوری کو کورے گاؤں جنگ کے دوسوسال کی تکمیل کے پیش نظر منعقدہ پروگرام کے دوران پونے کے قریب میں واقع بھیمہ کورے گاؤں میں یہ تشدد پھوٹ پڑا تھا۔دستور ہند کے معمار بابا صاحب بھیم رائو امبیڈکر کے پوترے اور بھریپا بہوجن مہاسنگ ( بی ایم ایس )کے صدر پرکاش امبیڈکر نے ایک روز قبل دلت نوجوانوں کی موت اور بھیمہ کورے گائوں میںدلتوں پر کئے گئے حملے کے خلاف مہارشٹرا بند کا اعلان کیا تھا۔ بند کا اثر دکھائی دیا اورمہارشٹرا کے بشمول کرناٹک اور تلنگانہ کے کچھ حصوں میںبھی مذکورہ واقعہ کے خلاف دلت سماج کے لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا۔منگل کے روز دلت سماج کی فلاح وبہبود میںسرگرم تنظیموں نے واقعہ کے خلاف شدید احتجاج کرتے ہوئے دلتوں پر حملے کرنے والے کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا۔ ممبئی کے علاوہ ریاست کے دیگر 9 اضلاع میںسرگرم دلت تنظیموں نے اپنے احتجاج میں شدت پیدا کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے ریاستی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ خاطیوں کے خلاف کاروائی کرے۔ بی جے پی کو اس ذات پات کے تشدد سے فکر لاحق ہوگئی ہے۔ پارلیمنٹ میں بھی اس مسئلہ پر اپوزیشن نے ہنگامہ کیا ہے۔ دوسری جانب مراٹھا تنظیموں کے سربراہان نے بھی منگل کے روز اس بات کا اعلان کیا تھا کہ بھیمہ کورے گاؤں میںدلت سماج کے نوجوانوں پر کئے گئے حملوں میں مراٹھا سماج کے لوگ شامل نہیںتھے۔ انہوں نے کہاکہ مراٹھا سماج اس وقت بھی دلتوں کے ساتھ تھا جب وہ دو سو سال قبل بھیمہ کورے گاؤں میں پیشواؤں کے خلاف جنگ لڑرہے تھے اور آج بھی ساتھ ہے جب ان پر حملے کئے جارہے ہیں۔مراٹھا نونرمان سینا کے سربراہ نے بتایا کہ ریاست مہاراشٹرا میںدلتوں اور مراٹھا سماج کے درمیان کے تال میل کو توڑنے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پیشواؤں کے حامیوں نے بھیمہ کورے گاؤں میں دلت سماج کے لوگوں پر حملے کئے ہیں۔ بند کے دوران کئی مقامات پر سرکاری گاڑیوں کے ساتھ توڑ پھوڑ کے واقعات بھی پیش آئے اور بس‘ ٹرین سرویس بند کردئے گئے۔
مہاراشٹرا بند کے اعلان کے ساتھ ہی ممبئی کے آٹو رکشہ ڈرائیورس نے بھی رضاکارانہ طور پر بند میں شامل ہونے کا اعلان تو دوسری جانب سے ممبئی کے ’ ڈبہ والا ‘ نے بھی چہارشنبہ کے روز اپنے سروسیس کو بند میںشامل ہونے کے غرض سے روکنے کا اعلان کیا۔کہاجارہا ہے کہ 2019انتخابات کے پیش نظر بھیمہ کورے گاؤں تشدد کو ہوا دینے کی سیاسی سازشیں بھی کی جارہی ہیں۔ بی جے پی مرکز میں برسراقتدار ہے کا حالیہ گجرات الیکشن میںمظاہرہ ٹھیک نہیں رہا اور ان کا سب کا ساتھ سب کا وکاس کا فارمولہ گجرات میں ناکام ہوتا نظر تو اپنے کھوئی ہوئی ساکھ کو بچانے کے لئے پھر ایک بار بی جے پی پر تشدد کا سہارا لینے کا الزام لگ رہا ہے۔ بھیمہ کورے گاؤں تشدد کے ضمن میں جو رائے ناقدین کی سامنے آرہی ہے وہ قابل غور بھی ہے۔ اے ائی سی سی جنرل سکریٹری وانچار ج مہاراشٹرا موہن پرکاش کا دعوی ہے کہ ’’ جن ریاستوں میں بھی بی جے پی اقتدار میں وہاں پر آر ایس ایس اور اس کے حامی دلتوں کے وقار میں منعقدہ ایسے تقریب کو درہم برہم کرنے کا موقع نہیںگنواتے‘‘۔کانگریس کے سینئر لیڈر وسابق چیف منسٹر مہاراشٹرا پرتھوی راج چوہان نے اس ضمن میںکہاکہ ’’ کچھ طاقتوں کے لئے جان بوجھ کر نظم ونسق کو بگاڑنے کاکام کیاگیا ہے‘‘۔ انہوں نے چیف منسٹر مہاراشٹرا دیویندر فنڈناویس اور اس کے ساتھ این سی پی سربراہ شرد پوار کو بھی موردالزام ٹھراتے ہوئے کہاکہ ’’ میں نے کہا تھا کہ کچھ باہر سے آئے دائیں بازو کے شر پسند عناصر تشدد کے لئے اشتعال انگیزی پھیلا رہے ہیں‘‘۔ پیر کے روز ’’ برسرخدمت‘‘ جج کے ذریعہ بھیمہ کورے گائوں تشدد کے واقعہ کی جانچ کا اعلان کردیاگیا مگر ایوان پارلیمنٹ میں چہارشنبہ کے روز ایک دوسرے پر الزام تراشی کا کھیل بھی کیا جارہا ہے۔ ہندو دائیں بازو تنظیم کے دولیڈرس ملند ایکبوٹے ( ہندو ایکتا اگاہاڈی) اور شیو پریتیشن کے سمبھاجی شنڈے کے خلاف تشدد بھڑکانے کا مقدمہ پولیس نے درج کیا ہے۔ اس کے علاوہ دلت لیڈر او رگجرات کے رکن اسمبلی جنگیش میوانی اور جے این یو اسٹوڈنٹ عمر خالد کے خلاف بھی ایک جوابی شکایت درج کرائی گئی۔ دونوں پر 31ڈسمبر2017 کے روز پونے کے شنی وار واڑہ میں بھیمہ کورے گائوں واقعہ کی یاد میں منعقدہ ’’ یلغار پریشد‘‘ پروگرام کے دوران عوام کومشتعل کرنے کا الزام ہے۔ مبینہ طور پر یہ کہاجارہا ہے کہ گجرات کے دلت لیڈر نے کہاتھا کہ’’ لوگ سڑکوں پر آئیںاور اپنا ردعمل پیش کریں‘‘جس کے نتیجے میں یہ دو گروہوں کے درمیان میں تصادم کے واقعات پیش آئے۔