مولانا محمد علی جوہر کے یوم وفات پر خاص ۔بیمار قوم پرستی کی علامت کیوں بن گئے جوہر؟

کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہے ‘جن تفتیش آپ کے ذہن پر کنداں ہوجاتا ہے اور پھر وہ مٹائے نہیں ملتا۔انہی میں سے ایک مولانا محمد علی جوہر کی شخصیت ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں نے مولانا محمد علی جواہر کے بارے میں پہلی مرتبہ کب اور کیاسنا؟ لیکن ان کے بارے میں اتنا سناکہ ان کی شخصیت کا ایک ہیولا سامیرے ذہن میں بن گیا۔ شیروانی ‘ مخملی دوپلی ڈوپی اور گاندھی نما گول شیشے والی عینک زیب تن کئے ہوئے ‘ ای بارعب شخصیت‘ جو انتہائی مختصر مدت میں بہت سے کام انجام دے کر ‘ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔جب میں عقل وشعور کی منزلیں طے کرتے ہوئے ‘ کچھ بڑا ہوا او رمولانا کے بارے میں مزید جاننے اور پڑھنے کا موقع ملاتو ان کا اسیر ہوکہ رہ گیا‘ ملت کے اس عاشق کے بے لوث عشق اور دیوانے پن نے مجھے اپنا مرید بنالیا۔

ان سے محبت اور شیفتگی کا نتیجہ تھا کہ مولانا کے بارے میں کچھ بھی ملا پڑھ ڈالا۔ مجھے یاد پڑتا ہے ہ جب میں عربی کی ابتدائی درجات میں تھا ‘ تبھی ( مولانا محمد علی جوہر‘پ10ڈسمبر1878رام پور ‘ م جنوری1931لندن) اور زمیندار( مولانا طفر علی خان پ1873وزیر آباد م27نومبر1956وزیر آباد) کی فائلیں چاٹ ڈالیں۔میں اسے اپنی خوش قسمتی سے تعبیر کرتا ہوں کہ مجھے مولانا محمد علی جوہر کے معہد یعنی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں علمی پیاس بجھانے کا موقع ملا۔ یہاں ان کے بارے میں جاننے اور پڑھنے کے خو مواقع ہاتھ ائیے۔

حالیہ دنوں میں مولانا محمد علی جوہر بہت یاد ائے ‘ ان کے یاد آنے کی کئی وجوہ ہیں۔ ان میں سے ایک تویہ کہ ان کے ذریعہ قائم کردہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا قدیم نے پہلی مرتبہ علیگ بردران کے طرز پر مولانا محمد علی جوہر کی یوم پیدائش (10ڈسمبر1878ء رامپور) کی مناسبت سے پوری دنیا میں تزک واحتشام سے ’ جوہر ڈنر‘ کا اہتمام کرتے ہوئے ایک نئی ریت ڈالی۔ تقریب جامعہ ملیہ اسلامیہ میں دو مرتبہ سجی ایک 10ڈسمبر 2017پر جامعہ برداری نے اپنے محسن کو خراج عقیدت پیش کرنے کے علاوہ فارغین جامعہ کی نمائندہ شخصیات کے کارہائے نمایاں کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں ایوارڈ سے نوازا ۔ جوہر کی یاد آنے کا دوسرا سبب ‘ عالمی سطح پر یروشلم اور بیت المقدس کی خبروں میں جگہ پانا رہا۔’ سر پھرے امریکی صدر ٹرمپ کے ذریعہ اسرائیل کے لئے اس سرزمین کو راجدھانی کے طور پر تسلیم کرنا اور وہاں سفارت خانے کی منتقلی کے منصوبے کا اعلان ہے۔

یہ وہی یروشلم اور بیت المقدس ہے ‘ جہاں مولانا مدفون ہیں۔ یہاں یہ بات واضح کردیں82برس قبل مولانا محمد علی جوہر نے اس جہان فانی کو الوداع کہاتھا ۔مولانا عبدالمجاد دریا آبادی نے اپنی کتاب’’ محمد علی ذاتی ڈائری کے چند ورق‘‘میں لکھاہے’’ آخری سفر دیکھنے میں لندنکا سفر تھا‘ گول میز کانفرنس کے لئے اور حقیقت میں سفر آخرت ۔ بدبینوں نے کہاکہ اب اس خاک ستر کے ڈھیر میں ہے کیا؟ لیکن جب بولنے کھڑے ہوئے تو انگریز او رہندی سب پکارا اٹھے کے یہ گوشت پوست کا بنا ہوا آدمی ہے‘ یا ایک متحرک کوہ آتش فشاں ! فاش وبرملاکہا( جیسے مستقبل کو دیکھ ہی رہے تھے)کہ آزادی لینے آیاہوں‘ یاتو آزادی لے کر جاؤں گا یا اپنی جان اسی سرزمین پردے کر ۔

جنوری1931کی چوتھی تاریخ اور شعبان 1350ہجری کی 15ویں شب میں‘ عین اسوقت جب روئے زمین کے مسلمان اپنے پردگار سے رزق کی ‘ صحت کی‘ اقبال کی ‘ زندگی کی ‘ مغفرت کی نعمتیں مان رہے تھے ‘ مشیت الہی نے یہ نعمت عظمی دنیائے اسلام سے واپس لے لی۔انہوں نے ہمیشہ ہمیش کے لئے آنکھیں موندلیں۔مولانا نے جب انتقال کیا ان کی عمر محض 52سال تھی۔ مولانا کو یا کرنے کی ایک تیسری وجہ بھی رہی کہ اس بار ہمارے ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اسرائیل کی دعوت پر 4تا6جولائی 2017وہاں کا دورہ کیالیکن انہیں اس بات کی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ وہاں ہوتے ہوئے ‘ ہندوستان کے اس عظیم اور جلیل القدر مجاہد آزادی کے مقبرے پر بھی عقیدت کے پھول نچھاور کر آتے۔بدقسمتی سے ہم مسلمان ہند بھی اس موقع پر ناتو کوئی مہم چلاکسے اور ناہی وزرات خارجہ یا ہندوستانی سفارت کاروں کو اس بات کی توفیق ہوئی کہ وہ مولانا محمد علی جوہر کو موقع کی مناسبت سے یاد کرلیتے۔

وزیر اعظم خود ہی نہ سہی کسی وزیر یاایلچی کے ذریعہ گل پوشی کی رسم ارا کرائی ہوتی تو یہ بات یقیناًایک بیس کروڑ ہندوستانیوں کے دلوں کو خوش کرنے کا باعث بن جاتی‘ لیکن ایسا لگتا ہے کہ جب اقتدار کا نشہ چڑھ جاتا ہے تو عصبیت وخود عرضی کسی کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے ‘ تو پھر دیش بھکتی اور راشٹرواد بھی مخصوص نظریہ اور جامعہ پہن لیتا ہے۔ ہندوستانی محمد علی جوہر کو تحریک خلافت کے ایک عظیم قائد کے طور پر جانتے ہیں ‘ گرچہ ہم خلافت کو بچانے میں کامیاب نہ ہوسکے ‘ جس کا صدمہ مولانا محمد علی جوہر سمیت پورے ہندوستانیوں کو رہا ۔ محمد علی جوہر کے جامعہ نے اس مناسبت سے یکم مئی 2017کو ترکی کے صدر رجب طیب اردغان کو اعزازی ڈگری سے نوازا۔

جہاں طیب اردغان نے جامعہ ‘ خلافت تحریک اور آزادی کا ذکر کرتے ہوئے ‘ مولانامحمدعلی جوہر کو یاد کیا۔ طیب اردغان ہی کی کوششوں کے نتیجہ ہے کہ ترکی میں اسلام کا نشاۃ ثانیہ ہورہا ہے۔امروز فی الواقع ’ احسان فراموش ‘ کا دور ہے لہذا آج کی نسل اپنے محسنوں کو فراموش کرتی جارہی ہے۔ تو ہم نہ اس سے حیران ہیں نہ پریشان ۔ اصول پسند احباب کہتے ہیں کہ ضرورت اس بات کی تھی کہ ہم اسلاف کے کارناموں کو یاد کرتے اور انہیں اپنا قومی اثاثہ تصو ر کرتے ہوئے ان کی خدمات کا اعتراف کو یقینی سمجھتے۔ لیکن ہم یہ کہہ سکتے ہیں ک قوم پرستی کا جذبہ جب بیمار اور تنگ نظر ہوجاتا ہے تو ملک کاسربراہ بھی دیا ر غیر میں‘ ایک مجاہد آزادی کو بھول جاتا ہے اور جس قوم کا سربراہ ہی غریب الوطن مجاہد کو فراموش کردے ‘ اس قوم سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنے محسن کو یاد رکھے گی!