رائے دہی اماوس کے دن ہونے سے کے سی آر بدشگونی کا شکار ، ٹی آر ایس سے متعدد قائدین کی علحدگی پر پارٹی میں الجھن
حیدرآباد 31 اکٹوبر (سیاست نیوز) مسلم متحدہ محاذ سے سرکردہ عالم دین مولانا جعفر پاشاہ کی علیحدگی نے ریاست میں نئی سیاسی بحث کا آغاز کردیا ہے۔ جعفر پاشاہ کے اس اقدام سے ٹی آر ایس کے خیمہ میں موجودہ پریشانی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ پارٹی میں بغاوت ، عوامی مخالفت اور دن بہ دن پارٹی قائدین کو عوامی رسوائی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے تو دوسری طرف مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم میں میں حمایت کے تعلق سے اختلاف کے سی آر کو نئی اُلجھن میں ڈال چکا ہے۔ بدشگونی اور ہر اقدام کو واستو کے لحاظ سے انجام دینے والے پارٹی کے صدر کے لئے رائے دہی کا دن بھی کچھ زیادہ ہی پریشانی کا سبب بنا ہوا ہے۔ چونکہ اس دن اماوس ہے۔ قبل ازوقت انتخابات کی تیاری میں عجلت سے پارٹی قائدین میں ناراضگی پائی جاتی ہے تو وہیں ایک کے بعد دیگر اہم قائدین پارٹی کو خیرباد کررہے ہیں۔ ان سب حالات سے اُلجھن میں مبتلا صدر ٹی آر ایس اب اس نئی پریشانی سے ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ پریشانیوں کے بھنور میں گھر گئے ہیں تو دوسری طرف ٹی آر ایس کی بی جے پی سے امکانی دوستی پر سیاسی حلقوں میں یہ بات زور پکڑ رہی ہے کہ گزشتہ 2014 ء کے انتخابات میں اگرچہ کہ ٹی آر ایس نے حکومت کو تشکیل دیا تھا لیکن اس کے ووٹوں کا تناسب قابل لحاظ نہیں رہا۔ سال 2014 ء میں حکومت تشکیل دینے والی ٹی آر ایس نے 34.3% ووٹ حاصل کئے جبکہ کانگریس نے 25.2% اور تلگودیشم نے 14.7% ، بی جے پی نے 7.1% ووٹ حاصل کئے۔ اب جبکہ عظیم اتحاد قائم ہوا ہے اس لحاظ سے تلگودیشم اور کانگریس کا رائے دہی کا فیصد اور بشمول کمیونسٹ جماعت کا فیصلہ یہ ٹی آر ایس کو کافی پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ عظیم اتحاد کا فیصد 40 سے زیادہ ہوسکتا ہے۔ اس بات سے بھی کے سی آر خوفزدہ ہیں۔ صدر تلگودیشم جو مرکز کی بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے قومی سطح پر جدوجہد کررہے ہیں بی جے پی کے حمایتی افراد اور پارٹیوں کے خلاف بھی اپنی حکمت عملی پر عمل کرنا شروع کردیا ہے اور فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تلنگانہ میں نہ صرف کانگریس سے اتحاد کرلیا بلکہ نشستوں کی تقسیم میں بھی بابو بڑے دل سے کام لے رہے ہیں۔ عظیم اتحاد میں بابو کی دریادلی اور کیپٹن کی حکمت عملی کامیابی کی ضامن سمجھی جارہی ہے۔ چونکہ کانگریس میں ایسا پہلی مرتبہ ہورہا ہے۔ کسی بھی قسم کی کوئی اندرونی مخالفت اور اعتراضات نہیں ہیں بلکہ کیپٹن کی کیپٹنی سے تمام اراکین مطمئن اور صرف چناؤ پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں لیکن ٹی آر ایس میں اس کے برخلاف داخلی اختلافات، بغاوت اور اعتراضات جیسے جیسے تاریخ قریب آرہی ہے، منظر عام پر آتے ہی جارہے ہیں اور عوامی مخالفت کو دیکھتے ہوئے سرکردہ قائدین بھی عوام کے درمیان پہونچنے سے گھبرا رہے ہیں جو مخالفین کے لئے فائدہ کا سبب بنا ہوا ہے۔