فرانس میں جاری کانفرنس میں چین کا اہم رول، کیوٹو پروٹوکول اہمیت کا حامل، مالدار اور غریب ممالک کا امتیاز ختم کیا جائے
لی بُرگیٹ (فرانس) 2 ڈسمبر (سیاست ڈاٹ کام) بیسک (Basic) ممالک بشمول ہندوستان نے آج ترقی یافتہ ممالک سے یہ خواہش کی کہ وہ 2020 ء تک ترقی پذیر ممالک کو 100 بلین ڈالرس کی فراہمی کے لئے کوئی واضح روڈ میاپ پیش کرے تاکہ ترقی پذیر ممالک جو موسمی تغیر کے موضوع پر منقسم ہوچکے ہیں جبکہ مذاکرات کار اس بات کے لئے کوشاں ہیں کہ ترقی پذیر ممالک کو موسمی تغیر کے مسئلہ سے نمٹنے ایک ایسا فارمولہ تیار کیا جائے جو سب کے لئے قابل قبول ہو۔ بیسک ممالک کی جانب سے چین نے پلانیری میں ایک بیان جاری کرتے ہوئے ایک شفاف اور واضح طریقہ کار کی ضرورت پر زور دیا اور کہاکہ بیسک موسمی تغیر پر مساویانہ معاہدہ کی حمایت کرے گا۔ چین کے مطابق معاہدہ اقوام متحدہ کے فریم ورک موسمی تغیر پر کنونشن کے تمام اصولوں اور ضابطوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جانا چاہئے۔ خصوصی طور پر مساواتی پہلو کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے تاکہ غریب، پسماندہ، جنگ زدہ اور ترقی پذیر ممالک کو یہ شکایت نہ ہو کہ اُنھیں نظرانداز کیا جارہا ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ یقینی ہے کہ پیرس معاہدہ کے ہر عنصر میں کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ اختلافات تو ضرور موجود ہوں گے۔
بیسک ممالک نے اس بات کا سخت نوٹ لیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کو جو تعاون پیش کیا جاتا ہے اُس میں کہیں نہ کہیں کوئی خلاء ضرور ہے۔ بیسک ممالک جیسے برازیل، جنوبی افریقہ، ہندوستان اور چین کا کہنا ہے کہ کیوٹو پروٹوکول کی جو دوسری کمٹمنٹ میعاد ہے، وہ انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور معاہدہ سے قبل کنونشن میں اس کے اطلاق کے لئے ایک انتہائی ضروری عمل ہے۔ پیرس میں 2020 ء مذاکرات میں کیوٹو پروٹوکول کے تمام عناصر موجود ہونے چاہئے اور ساتھ ہی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان جو بھی اختلافات ہیں یا نظریاتی تبدیلیاں ہیں، اُن کو جوں کا توں موقف دیا جانا چاہئے۔ قبل ازیں کئے گئے موسمی معاہدہ یعنی 1997 ء کیوٹو پروٹوکول نے دنیا کو ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک میں تقسیم کردیا تھا اور صرف ترقی یافتہ ممالک سے ہی خواہش کی تھی کہ وہ اپنی گرین ہاؤس گیاسیس کے اخراج میں کمی کرے۔ امریکہ، یوروپی یونین اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کا کہنا ہے کہ اب کی بار سب کو ایک ساتھ آگے آنے کی ضرورت ہے اور غریب اور مالدار ممالک کا امتیاز ختم ہونا چاہئے۔ کیوں کہ آج کے دور میں اس نوعیت کے امتیاز کی کوئی گنجائش نہیں۔ چین کی جانب سے جاری کئے گئے بیان میں یہ سب باتیں کہی گئیں۔ قطر جیسے دنیا کے امیر ترین ملک کو بھی ترقی پذیر ملک کہا جانا بھی حیرت انگیز ہے۔ ہندوستان اور دیگر ممالک یہ چاہتے ہیں کہ پیرس معاہدہ میں اس بات کی وضاحت کردی جائے کہ موسمی تغیر اور عالمی حدت کم کرنے میں ترقی یافتہ ممالک کی ذمہ داری زیادہ ہے۔ کانفرنس آف پارٹیز (CoP21) میں ہندوستان کے اعلیٰ سطحی مذاکرات کار اجئے ماتھر نے کہاکہ ہندوستان ایک منصفانہ اور پائیدار معاہدہ کے لئے تمام پارٹیوں کے ساتھ کام کرنے تیار ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ ہندوستان اس بات پر ہمیشہ زور دیتا آیا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کو گیاس کے اخراج میں کمی کے لئے زائد نشانوں کی تکمیل کرنی چاہئے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے اس سلسلہ میں کسی بھی یکطرفہ کارروائی کے خلاف انتباہ دیا ہے کیوں کہ اس طرح موسمی تغیر کے خلاف جو لڑائی جاری ہے اُس میں معاشی امتیاز پیدا ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ اُنھوں نے توقع ظاہر کی کہ ترقی یافتہ ممالک اس مقصد کے لئے 2020 ء تک 100 بلین امریکی ڈالرس جاری کرتے ہوئے اسے ایک حرکیاتی عمل میں تبدیل کردیں گے۔