نیویارک، 4دسمبر (سیاست ڈاٹ کام) اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹریس نے کہا ہے کہ پوری دنیا موسمیاتی تبدیلی کے شدید بحران میں ہے اور زمین کے مستقبل کے لئے پالیسی سازوں کو اپنی توجہ موسمیاتی تبدیلی کی کارروائی میں آگے بڑھانے ، مستحکم پلاننگ ، مزید فنڈنگ اور سمجھداری سے مکمل سرمایہ کاری پر مرکوز کرنا ہوگا۔مسٹر گوٹریس نے پولینڈ کے کوٹوائس میں موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے معاہدے کے تحت کانفرنس آف پارٹیز کی 24 ویں اجلاس (سي اوپي -24) میں شامل 150 ممالک کے رہنماؤں سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات کہی۔ اجلاس میں موسمیاتی تبدیلی کے معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک کے سامنے 2015 کی تاریخی پیرس معاہدے پر عملددآمد کیلئے ایک مقررہ وقت طے کیا گیا ہے ۔قابل ذکر ہے کہ فرانس کے دارالحکومت پیرس میں تین سال پہلے 2015 میں ہونے والے معاہدے میں شامل ممالک اجتماعی طور پر عالمی درجہ حرارت کو دو ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ نہیں بڑھنے دینے پر اتفاق کیا تھا۔ اورساتھ ہی یقین دہانی کرائی تھی کہ اگر ممکن ہو تو اس اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیس تک محدود کریں گے ۔ پولینڈ میں اب ان ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ وہ کس طرح اجتماعی طور پر اس مقصدکو حاصل کریں گے ۔مسٹر گوٹریس نے کہا‘‘ہم کوٹوائس میں ناکام نہیں ہوں گے ’’۔انہوں نے بہت سے دوسرے اعلی سطحی نمائندوں کے ساتھ پروگرام شروع کرتے ہوئے اجلاس میں حصہ لے رہے عالمی نمائندوں، غیر منافع بخش تنظیموں، اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور نجی شعبے کی کمپنیوں کے لئے چار اہم پیغام دیا۔انہوں نے کہا‘‘ہمیں مزید عزائم کے ساتھ مزید کارروائی کرنے کی ضرورت ہے ۔ ممالک کے درمیان اعتماد سازی کے لئے رہنما خطوط کا نفاذ انتہائی ضروری ہے ۔ موسمیاتی تبدیلی پر کارروائی کے لئے کافی فنڈنگ ضروری ہے اور موسمیاتی تبدیلی پر کارروائی سماجی اور اقتصادی سمجھداری کے ساتھ ہو’’۔ قبل ازیں دنیا ماحولیاتی تباہی سے بچانے کیلئے بنائے گئے منصوبوں سے ہی ہٹ گئی ہے جس کے تباہ کن نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ان خیالات کا اظہار اقوام متحدہ کے انٹونیو گوٹریس نے کیاہے ۔ بین الاقوامی رپورٹوں کے مطابق پولینڈ کے شہر کوٹوائس میں دنیا بھر کے وفود ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق ہونے والے سربراہی اجلاس کے لیے جمع ہوئے ہیں۔اس کانفرنس کے دوران اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری انتونیو گوٹریس نے وفود سے کہا کہ ہم اس ضمن میں نہ بہتر کام کر رہے ہیں اور نہ ہی اس کی رفتار بہتر ہے ۔اجلاس کے دوران انتہائی خطرے سے دوچار ممالک فیجی، نیپال اور نائیجیریا نے سی پی او 24 میں اپنے کیس کی درخواستیں دیں جس نے 2015 میں پیرس میں ہونے والے ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق اجلاس میں ان خطرات کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔پیرس معاہدہ میں شریک وفود نے عالمی درجہ حرارت میں کمی لانے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا۔ جو گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کی وجہ سے اس وقت 2 ڈگری سینٹی گریڈ ہے جسے ممکنہ طور پر 1.5 ڈگر سینٹی گریڈ پر لایا جائے گا۔دنیا کے 200 ممالک کو اب صرف دو ہفتوں کی مہلت دی گئی ہے تاکہ وہ اس عالمی مشق میں حصہ لینے سے قبل اپنے کام کے طریقہ کار کو وضع کریں۔پولینڈ میں ہونے والے اجلاس میں دنیا کے ان ممالک کے وفود نے بھی شرکت کی تھی جن کا گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کا تناسب دنیا کے دیگر ممالک سے زیادہ ہے ۔اجلاس کے دوران جیواشم ایندھن کا معاملہ بھی زیربحث آیا اور بتایا گیا کہ اگر اس کا استعمال ترک نہ کیا گیا تو ماحول میں تباہ کن نتائج سامنے آسکتے ہیں۔پیرس میں ہونے والے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ دنیا کی ترقی یافتہ ممالک دنیا کی ترقی پذیر ممالک کو فنڈز دیں گے تاکہ وہ اپنے ماحول کو بھی سرسبز بنا سکیں۔خیال رہے کہ عالمی بینک کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ دنیا میں ماحولیاتی تبدیلی کو قابو کرنے کے لیے 25-2021 تک 2 سو ارب ڈالر کی ضرورت ہے ۔