مودی کے ایک مداح جو چاہئے والا بن گئے تھے نے کہاکہ معاف کرنا میں میں اب چوکیدار نہیں بن سکتا۔

ہیرالال جو مودی کے بڑے مداح تھے اور انہوں نے چائے کی دوکان کھول لی تھی ‘ وہ اب مودی کے سب سے بڑی ناقد بن گئے ہیں۔

اگر ووٹ بہروں کے لئے گونج ہے تو میگا فون اب بھی پنڈتوں‘ پول ماہرین اور سیاست دنوں کی اجارہ داری کا شکار ہیں۔

انتخابی موسم میں سب لوگ دلتوں کی بات تو کرتے ہیں مگر کیاہم سچ میں انہیں مداخلت کئے بغیر ان کی بات سن سکتے ہیں؟۔

پچھلے ہفتہ علی گڑھ میں انتخابی مہم کی رپورٹنگ کے دوران ہری لال کے پاس گئے جو مودی ایک بڑے مداح ہیں اور انہوں نے اترپردیش سے دہلی کو جوڑنے والے ہائی وے پر ایک چائے کی دوکان کھول لی ہے۔

ہری لال جس کا تعلق دلت سماج سے ہے وہ اب مودی کے ناقد بن گئے ہیں۔

علی گڑھ سے واپسی کے دوران اخبار کے نمائندے نے ہری لال سے دوبارہ ملاقات کی اور ان سے استفسار کیا کہ آیا وہ اپنی بات چیت ریکارڈ کریں گے۔

اس کے پیش نظر بیس منٹ تک ہوئی بات چیت جو ہندی میں ہوئی یہاں پر پیش کی جارہی ہے۔

میرا نام ہری لال ہے میں ایک چائے کی دوکان چلاتاہوں۔ ہمارے پاس مرکز او رریاست دونوں مقام پر بی جے پی کی حکومت ہے ۔

سابق میں اس پارٹی نے رام مندر کے نام پر ووٹ مانگے ۔اب وہ ہندوستان کی خارجی پالیسی کا حوالہ دے رہے ہیں۔ ہم نے علی گڑھ میں اراکین اسمبلی کو جنھوں نے کچھ کام نہیں کیاہے۔

اب پانچ سال بعد میرے جیسے لوگوں کے لئے وقت آگیا ہے ‘ جوغریب ہیں‘ جو ناانصافی کاشکار ہوئے ہیں‘ تاکہ ہم مثبت جواب دے سکیں۔ مثبت جواب کے بعد انہیں اندازہ ہوجائے گا کہ کون خوش ہے اور کون ناخوش ہے۔ہمارے وزیراعظم ہر روز جملہ بازی جرتے ہیں۔

پہلے انہوں نے کہاتھا کہ ان کی چائے کی دوکان ہیں مگر اب وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ چوکیدار ہیں۔ کس طرح کے چوکیدار ہیں وہ ؟

۔وہ ہوائی جہاز میں دنیا گھومنے والے چوکیدار ہیں اور تمام قسم کی سکیورٹی کے ان کے اردگرد رہتی ہے۔

ہمارے پاس ملک میں چوکیدار ہیں جس کے پاس سر پر باندھنا کے لئے پگڑے کا 2.5میٹر کپڑا نہیں ہے ۔ پولیس اسٹیشن میں موجودچوکیدار کے ساتھ پر پگڑی ہوتی ہے۔

ہم جو بھی دیکھ رہے ہیں وہ جملہ بازی ہے۔ جو لوگ غریب اور پسماندہ ہیں ان کامثبت جواب 23مئی کو مل جائے گا۔

جن لوگوں نے ہمارے ساتھ انصاف کیاہے انہیں احساس ہوجائے گا پھر وہ حقیقت میں ہمارے ساتھ کیاکئے ہیں‘ انہیں کرنا کیاچاہئے تھا۔

انہوں نے تمام جملہ بازی او رہمیں بھروسہ دلایا۔’’ ہم ایسا کریں گے ہم ویسے کریں گے‘‘۔انہوں نے 2.5لاکھ نوکریوں کے متعلق بات کی ۔

کچھ 4.5لاکھ لوگ ریٹائرڈ ہوگئے مگر انہوں نے ان خالی جائیدادوں کو پر نہیں کیا۔ جو لوگ پچاس ہزار روپئے کماتے تھے ان کی آمدنی دس سے پندرہ ہزار تک ہوگئی ۔

ہمارے تعلیمی یافتہ نوجوان جو گھروں میں بیٹھے ہیں وہ کیا کریں گے؟کیاوہ پانچ سے دس ہزار روپئے کی کم تنخواہوں پر کام کریں؟۔ وہ نہیں کرسکتے ۔

ان کی سیاست صرف گائے ‘ گوبر ‘ گنگا پر چل رہی ہے ۔گائے کی وجہہ سے کتنے لوگ مارے گئے۔

موٹرسیکل پر جانے والے ہائی وے پر گائیوں کی موجودگی کے سبب ہلاک ہورہے ہیں۔ لوگوں کو پیٹا جارہا ہے گاڑیوں کے ساتھ توڑ پھوڑ کی جارہی ہے۔

وہ لوگ گائے کو ماں بولتے ہیں مگر انسانوں کے ساتھ رحمدلی قطعی نہیں ہے۔

جب ایک گائے ماں بن سکتی ہے تو انسانوں کے ساتھ رحمدلی کیوں نہیں؟۔جب تک گائے دودھ دیتی ہے تو وہ ماں رہتی ہے جب وہ ظعیف ہوجاتی ہے اوردودھ دینا بند کردیتی ہے تو اسی ماں کو سڑکوں ‘ مارکٹ اورہائی ویز پر چھوڑ دیاجاتا ہے۔

ہمارے کسانوں کی فصلیں تباہ کردی جارہی ہیں۔ اب وہ کسان کیاکریں؟۔ کیا وہ اپنے گھروں کے چوکیدار بن جائے یاپھر فصلوں کی نگرانی کرتے رہیں‘ یا اپنے بچوں کی گھر والوں کاخیال رکھیں‘۔کوئی بھی رکن اسمبلی یا رکن پارلیمنٹ تعلیم کے متعلق بات نہیں کررہاہے ۔

وہ صرف ’’علی‘‘ او ر’’ بجرنگ بلی ‘‘ کی بات کررہے ہیں اور ہمارے دشمنوں کو کس طرح تباہ کریں اس پر بات کی جارہی ہے ۔

کوئی بھی لیڈر تعلیم پر بات نہیں کررہا ہے ۔ قبل ازیں وہ کہتے تھے’’ قسم رام کی کھائیں گے ‘ مندر وہیں بنائیں گے‘ لیکن طریقے کا نہیں بتائیں گے‘‘۔

آج کی تاریخ تک بھی ہمیں معلوم نہیں ہے کہ مندر کون سی تاریخ کو بنے گی۔

غیر کون انہیں مندر کی تعمیرسے روک رہا ہے؟۔

یہ لوگ محض ڈرامہ کررہے ہیں۔ میں ان پر بھروسہ نہیں کرتا۔میرے جیسے لوگ جو پانچ ہزارروپئے کی تنخواہ پر فیکٹریوں میں سخت محنت کرتے ہیں انہیں مندر یاپھر مسجد سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ ہم اس سے زیادہ اپنے بچوں کی تعلیم کی تشویش لاحق ہے ۔

انہیں ملازمت کیسے ملے گی؟۔ یہاں پر بہت ساری ملازمتیں ہیں ‘ مگر جہاں پر بھی نوکریاں ہیں وہاں پر کچھ نہ کچھ مسئلہ ہے ۔

یہی وہی لوگوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے رکاوٹیں کھڑا کی ہیں۔وہ لوگ ہندو او رمسلمانوں کی بات کرتے ہیں۔ ہر روز نیا ڈرامہ کھڑا کرتے ہیں۔

لہذا کئی مسلمانوں گائے کی سیاست کے نام پر ہلاک کردئے گئے ‘ گائے کا گوبر او رگنگا کا موضوع ہی اس کی وجہہ ہے۔

وہ نہیں چاہتے کہ کوئی بھی گائے کو چھوئے ‘ مگر انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کے بھوک ‘ پیاس او رسردی کے مارے گئے مرر ہی ہے۔

ان کے لئے گائے کی پوجا کافی اہمیت کی حامل ہے ۔ کیاوہ ماں کی اہمیت سمجھنے کے اہل ہیں؟۔

ان کی جملہ بازی کی شروعات پاکستان پر بمبار ی کرنے اور چار سو لوگوں کی ہلاک کرنے سے شروع ہوتی ہے۔ محض21منٹ میں ان لوگوں نے نعشوں کی گنتی بھی کرلی ۔

مگر میں کہہ سکتاہوں کہ ان حالات میں ایک گھنٹہ کے اند ر بھی کوئی ایک سونعشوں کی گنتی نہیں کرسکتا‘ چارسوکو تو بھول ہی جائیں‘ یہ بے وقوف بنانے کی باتیں ہیں‘ جملہ بازی کے سواء کچھ اور نہیں ہے۔

سال 2014میں جب نریندرمودی جی وزیراعظم بنے میں سمجھا کہ شائد مجھے بھی ترقی ملے گی ۔

میں نے مودی جی کو دیکھ کر چائے کی دوکان کھول لی ‘ سونچا کے اگر ایک چائے والا وزیراعظم بن سکتا ہے تو میں بھی کچھ بڑا حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاؤں گا۔

مگر کیاہوا؟ پچھلے چار سال سے میں چائے فروخت کررہاہوں او رمیرے بڑے نے جملہ بازی شروع کردی ۔

ہاتھ جوڑ کر میں نے کہہ دیامیں چوکیدار نہیں بن سکتا۔ گائے گوبر او رگنگا پر میرا یقین نہیں ہے۔میں گائے کے خلاف نہیں ہوں ۔ ایک جانورتو جانور ہوتا ہے وہ ماں نہیں بن سکتا ۔ ماں اوراس میں کوئی تقابل نہیں ہے