بینو میتھیو
ہندوستان کے وزیر اعظم نریندرمودی اسرائیل کے دورے پر ہیں۔ یہ ایک تاریخی دورہ ہے۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کسی ہندوستانی وزیراعظم نے اسرائیل کا دورہ کیاہے۔ تمام پروٹوکال کو بلائے طاق رکھ کر اسرائیل وزیراعظم بنجامن نتن یاہو بہ نفس نفیس بین گورین ائیرپورٹ پر مودی کے استقبال کے لئے پہنچے۔چلوایک قدم پیچھے ہٹ کر اس تاریخی دورے کا سرسری جائزہ لیں گے ۔ دی اسرائیل پارلیمنٹ نے حالیہ دونوں میں ایک بل منظور کیا ہے جس میں اسرائیل کو’’ یہودیوں کا قومی گھر‘‘ قراردیا گیا ہے۔اسرائیل کے اعداد وشمار کی مرکزی بیور و کے مطابق سال2013میں عرب آبادی ایک اندازے کے مطابق 1,658,000تھی جو ملک کی آبادی کا 20فیصد تناسب ہے۔اس کے علاوہ 1.65ملین فلسطینی عرب یہودی کی قومی گھر میں دوسرے درجے کے شہر بن گئے ہیں۔لہذا مودی نے اپنے استاد محترم یعنی راشٹرایہ سیوم سیوک سنگھ کے دوسرے بڑے لیڈر گوالکر کی خواب گاہ جنھوں نے اپنی کتاب’’ وی اور اور نیشن ہڈ ڈیفائنڈ ‘‘ میں لکھاتھا کا دورہ کیاہے۔
’’بیرونی نسلوں کو چاہئے کہ وہ ہماری ثقافت اور زبان کا اپنائیں‘ہندو مذہب کااحترام کرنا سیکھنا چاہئے‘ہندونسل اور ثقافت کا نذر انداز کرنے والوں کا سبق سیکھایاجائے‘انہیں ہندؤوں کے نسل میں ضم کرکے ان کی مذہبی شناخت کا ختم کرنا ضروری ہے اور یہی ہندوقوم ہے‘اور انہیں ہی ہندوستان میں رہنے بسنے کا حق ہے‘ ایسے لوگوں کے ساتھ کسی قسم کا امتیازی سلوک نہیں کیاجائے گا اور نہ ہی وہ کسی سزاء کے مستحق ہیں‘ شہریوں کے حقوق بھی نہیں او رمتبادل بھی انہیں فراہم نہیں کیاجانا چاہئے۔ہم ایک قدیم قوم ہیں اور اس کو بیرونی نسل کے ساتھ قدیم قوم کی طرف لے جائیں گے‘ ہم نے اپنے ملک میں رہنے اور بسنے کا فیصلہ کیاہے‘‘۔ لہذا مودی نے اس سرزمین کادورہ کیاہے جہاں پر آر ایس ایس کا خواب پورا ہوا ہے ۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ مودی او رنتن یاہو ایک دوسرے کو بھائی کہتے ہیں اور ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔صیہونت یہودیوں کا اعلی نظریہ ہے۔ اس کو یوروپ میں رکھنے والے یہودیوں کے ذریعہ نافذ کیاگیا۔
سال1896میں ایک سکیولر اسٹرین یہودی صحافتی تھیوڈور ہرزیل بین الاقوامی تحریک کویہودی قومیت میں تبدیل کیاتھا۔یوروپی سیاسی ماحول کی مالی امداد کرتے ہوئے صیہونی تحریک کو فروغ دینے کا یہودیوں نے کام کیاتاکہ انگریزوں کے زیر اثر فلسطین کو پیسے ‘ سیاسی ‘ ملٹری طاقتوں نصب کرتے ہوئے حاصل کیا جاسکے جس ملک اور فلسطین میں اسرائیل کا نام دیاگیا ہے اور700,000حقیقی باشندوں کو صاف کردیاگیا۔اس منصوبے پر 1967کی چھ روز مسلسل جنگ کے دوران بھی جاری رکھا گیا او رساتھ میں ہزاروں اسرائیلی یہودیوں کو یوین قرارداد کو نذر انداز کرتے ہوئے فلسطین کی زمین پر بسانے کاکام کیاگیا۔اسرائیل دشمنی اور نفرت پر مبنی مملکت ہے۔ ایک ایسی قوم جس سے ہندوستان کافی متاثر ہے۔ مودی نے اب رملا کا دورہ کیا کو فلسطینی انتظامیہ کو ہیڈکوارٹر ہے جو سارے دنیا کے مسلمانوں کے لئے اور اپنے گھر ہندوستان واپس ائے مسلمانوں کے لئے ایک واضح پیغام ہے۔اسی راہ پر آر ایس ایس نے بڑھتی ہوئی آزادی تحریک پر تشویش میں ناگپور برہمنو ں کو ایجاد کیااور برطانیہ سے آزادی کے بعد ہندوستان اقتدار اعلی ذات والوں کے ہاتھوں میں سونپنے کی راہ ہموار کی۔آر ایس ایس کے ساتھ برطانیہ او رساورکی رحم کی درخواست کو ملک کو بھول جانے پر طئے ہوئی۔کچھ تاریخی حقیقت ان کا ہمیشہ تعقب کرتے رہیں گے۔
آر ایس ایس کا ایجنڈہ ہندوستان کو منو سمرتی کے ساتھ ہندوراشٹرا بنانا ہے جس کی بنیادی طور طریقہ انگریزوں کے چھوڑے ہندوستان پر مشتمل ہیں۔جب انہوں نے دیکھا کہ مہاتما گاندھی ان کے راستے کی دیوار بن رہے ہیں تو ان کے ایک آدمی ناتھو رام گوڈسے انہیں گولیوں کا نشانہ بناکر ہلاک کردیا۔آر ایس ایس کے دعوے کے مطابق جب نریندر مودی سال2014میں برسراقتدا ر ائے ایک ہزار سال کے بیرونی حکومت کے بعد انہیں ایک موقع اپنا خواب پورا کرنے کاموقع ملا ہے۔ ہجوم کا تشدد‘ ہجوم کے ہاتھوں ہلاکتیں‘ استحصال اورکھانے پینے کے حقوق‘ انسانی حقوق‘طرز زندگی کے حقوق ان کے بڑے منصوبے کا حصہ ہیں۔اسرائیل میںآرایس ایس کو قدرتی دوستی اور مثالی احساس ملا جوزمینی سطح پر اپنا نظریات کو کامیابی کے ساتھ نافذ کررہا ہے۔مودی اور نتن یاہو کے گٹھ جوڑ میں ہم نے دیکھا دو شیطانی صفت نظریات کا ایک دوسرے سے ملن ہے‘ جو ہندوتوا او رصیہونیت پر مبنی ہیں۔اسرائیل اپنی تکنیکی مہارت‘ حربوں کااستعمال فلسطینی عوام کی جدوجہد آزادی کو کچلنے میں لگا رہا ہے اورمودی کو کس طرح ہندوستان میں دلت او ردیگر اقلیتی گروپ کے ساتھ سلوک کرنے کا اس کا طریقہ سیکھانے کاکام کررہا ہے‘ اس خطرناک گٹھ جوڑ سے چوکنا ہوجائیں۔