دہلی ۔مودی حکومت نے سپریم کورٹ بابری مسجد کے غیر متنازع جگہہ پر رام مندر بنانے کی درخواست عدالت عظمی میں داخل کرکے اور ایک ایک نیا شوشہ پیدا کیا ہے ، اور اپنے سیاسی غلاموں سیاست چمکانے کا موقع دیا ہے، مرکزی حکومت عین انتخابات کے وقت یہ کرنا لوگوں کے اندر کافی بحث کا موضوع بنا ہوا ہے، اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی ادتیہ ناتھ نے مرکزی حکومت کے اس فیصلہ کا خیر مقدم کیا ہے ، مرکزی حکومت نے کہا کہ جس جگہ پر بابری مسجد تھی وہ 0.313 ایکڑ زمین ہے عدالت اسے اپنی تحویل میں ہی رکھے اور غیر متنازع زمین کو مندر بنانے کے لیے اسکے مالکان کے حوالہ کریں ۔
در اصل مودی حکومت کو ار ایس ایس کے لیڈران نے اپنی بیان بازیوں سے بری طرح گھیر لیا ہے ۔ آر ایس ایس کے رہنما کہتے ہیں کہ حکومت پارلیمنٹ میں حکم نامہ لا کر مندر کی تعمیر شروع کراے ، وزیر اعظم مودی کہتے ہیں کہ عدالتی فیصلہ کا انتظار کیا جاے، اور ہندووں کے دوسرے رہنماووں کے بیانات اتے ہیں کہ ہندووں کو عدالت کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے جلد از جلد شروع کیا جاے۔
ملی اطلاعات کے مطابق کل ۲۹ جنوری کو عدالت عالیہ میں اس سلسلہ میں مقدمہ شروع ہونے والا تھا لیکن جسٹس بوڈبے کے تعطیل پر جانے سے سماعت موخر ہو چکی ہے ،ذرایع ابلاغ سے ملی اطلاعات کے مطابق مودی حکومت نے عدالت سے کہا کہ ہندو فریقین کو جو حصہ دیا گیا ہے اسے رام جنم بھومی نیاس کو سونپا جاے اور بقیہ 2.77 ایکڑ زمین کا کچھ حصہ حکومت کو سونپا جاے۔
واضح رہے کہ ایودھیا میں بابری مسجد کی زمین سے ملحقہ تقریباً 70 ایکڑ زمین حکومت ہند کی تحویل میں ہے۔ اس میں سے 2.77 ایکڑ زمین پر الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ سنایا تھا اور جس ٹکڑے پر تنازعہ ہے وہ محض 0.313 ایکڑ ہی ہے۔ سن 1993 میں سپریم کورٹ نے اس زمین پر اسٹے لگایا تھا اور اس مقام پر کسی بھی طرح کی سرگرمی چلانے پر روک لگا دی تھی۔
غورطلب ہے کہ 30 ستمبر 2010 کو الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے ایودھیا تنازعہ کو لے کر فیصلہ سنایا تھا۔ جسٹس سدھیر اگروال جسٹس ایس یو خان اور جسٹس ڈی وی شرما کی بنچ نے ایودھیا میں 2.77 ایکڑ متنازعہ زمین کو 3 حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ ایک حصہ سنی وقف بورڈ، دوسرا ہندو مہا سبھا کو اور تیسرا حصہ نرموہی اکھاڑے کو سونپا گیا تھا۔
اب زمین کا ایک حصہ نرموہی اکھاڑے کو دئے جانے کا مطالبہ کرنے والی مودی حکومت کی منشا جگ ظاہر ہے، مندر تعمیر ہو نہ ہو اسے کسی بھی طرح اس معاملہ کو بھڑکا کر رکھنا ہے تاکہ اس کی ووٹ بینک کی سیاست میں کوئی کمی نہ رہے۔ یہاں ایک سوال یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ بابری مسجد کے انہدام کے بعد متنازعہ زمین اور اس سے ملحقہ جس زمین کے ٹکڑے کو حکومت نے تحویل میں لے لیا اسے اب یکسر غیر متنازعہ کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے