نئی دہلی-بھارتیہ جتنا پارٹی (بی جے پی) کے سینئر لیڈر اور سابق مرکزی وزیر سنگھ پریہ گوتم نے مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں پارٹی کی شکست کو ‘مودی منتر’ اور ‘امت شاہ کی حکمت عملی’ کے غیر موثر ہونے کو قرار دیا ا ور مسٹر نریندر مودی کو 2019 میں دوبارہ وزیراعظم بنانے کے لئے حکومت اور پارٹی میں باضابطہ تشکیل نو کی ضرورت پر زور دیا۔مسٹر گوتم نے آج یہاں ایک بیان جاری کرکے کہا ہے کہ مستقبل قریب میں عام انتخابات ہونے والے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ مودی حکمت عملی اب کارآمد نہیں رہے ۔
پورے ملک میں پارٹی کے کارکنوں میں مایوسی ہے ۔ ان کے دلوں میں بے چینی ہے لیکن وہ زبان نہیں کھول پارہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ملک کی بھلائی کے لئے 2019 کے عام انتخابات میں بی جے پی کو دوبارہ اقتدار میں آنا اور مسٹر مودی کا دوبارہ وزیراعظم بننا بہت ضروری ہے اس لئے حکومت اور تنظیم میں باضابطہ تشکیل نو کی ضرورت ہے ۔
انہوں نے کہا کہ مرکزی وزیر نتن گڈکری کو نائب وزیراعظم بنا دینا چاہئے جبکہ اترپردیش کے وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ کو عہدے سے ہٹاکر صرف پوجا پاٹھ کے کام میں لگانا چاہئے اور وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ کو اترپردیش کا وزیراعلی بنانا چاہئے ۔مسٹر شاہ کو صرف راجیہ سبھا میں اپنا جادو دکھانا چاہئے اور مسٹر شیوراج سنگھ چوہان کو بی جے پی کا قومی صدر بنایا جانا چاہئے ۔
انہوں نے کہا کہ 2014 کے لوک سبھا ا نتخابات میں زبردست جیت کے بعد مسٹر مودی کا قد بہت اونچا ہوگیا اور بی جے پی 22 ریاستوں میں اقتدار میں آگئی۔
سال 2017 میں اترپردیش کے اسمبلی انتخابات میں جیت سے مودی حکمت عملی اور مسٹر شاہ کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا لیکن اترپردیش کے انتخابی جیت کے بعد اچانک دونوں کو گرہن لگنا شروع ہوگیا۔
انہو ںنے کہا کہ آئین بدلنے کی باتوں، سپریم کورٹ، بھارتیہ ریزرو بینک ، مرکزی جانچ بیورو وغیرہ تنظیموں میں دخل اندازی اور معاشی فیصلوں نے لوگوں پر بر ااثر ڈالا۔
دوسری جانب منی پور اور گو ا میں حکومت بنانے کے لئے جوڑ توڑ، کرناٹک میں ایک دن کی حکومت بنانے ، اتراکھنڈ میں صدارتی حکومت قائم کرنے جیسے احمقانہ فیصلہ کئے گئے ۔
انہوں نے بے روزگاری، کسانوں کے مسائل ، کسانوں کی فصلوں کے مناسب قیمت نہیں دلانے جیسے تمام وجوہات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مندر۔ مسجد، گؤکشی، ذات کی بنیاد پر ریزرویشن، ایس سی ایس ٹی، درج فہرست قبائل انسداد زیادتی قانون وغیرہ مسائل پیدا ہونے سے لوگوں میں بے چینی میں اضافہ ہوا اور حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔