سالانہ دوکروڑ ملازمتیں مہیا کرنے کے دعوے پر منہ کی کھانے کے بعد وزیراعظم مودی کے پکوڑح بیچ کر 200روپے یومیہ کمانے والے کو ملازم بتانا‘ خفت مٹانے کی ناکام کوشش تھی جو کسی کے گلے نہیں اتر بیشتر نے اس کا برا مانا اور بیروزگاروں کی توہین قراردیا۔سابق وزیر خزانہ پی چدمبرم نے چبھتا ہوا تبصرہ کیا کہ اگر پکوڑے بیچنا ملازمت ہے تو گداگری کو بھی اسی زمرے میں شامل کرنا چاہئے۔ بات جو بھی ہوم ہم مودی کے انتخاب کے داددیں گے۔ چائے کہ ساتھ گرم گرم پکوڑے اس کا مزہ دوبالا کردیتے ہیں اور اسے مودی سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ سال2014کی انتخابی مہم سے وہ عوام کے دل جیتنے کے لئے اسی طرح کا توڑ جوڑ کرتے ائے ہیں۔ ڈیولپمنٹ‘ سب کا ساتھ سب کا وکاس اور اچھے دنوں کی آس دلاکر مستثنیات سے قطع نظر انہوں نے انتخابات جیتنے کا نیا ریکارڈ قائم کیا۔ اس لئے ہم نہیں سمجھتے کہ ان جیسا شاطر سیاستداں پیشہ اور ملازمت کے فرق سے ناواقف ہوگا۔
بنیادی فرق یہ ہے کہ پکوڑے بیچنا‘ ٹھیلہ یا خوانچہ لگانا انسان کی پسند نہیں مجبوری ہے جسے ملازمت کان دے کر بیروزگاری کا مذاق آڑایاگیا جو آج کے نوجوانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ عام انتخابات میں یہ طبقہ مودی کا سب سے بڑا حامی تھا لیکن آج سب سے زیادہ مایوس ہے اور امسا ل کے اسمبلی اور اگلے سال کے عام انتخابات میں مودی اور بی جے پی کے لئے مشکلیں کھڑی کرسکتا ہے۔کسی بھی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے چار سال کی مدت بہت ہوتی ہے ۔ اس مدت میں مودی نے عوام کے جھوٹے وعدے اور دعوے کرنے اور بیرون ممالک اپنی شبیہ چمکانے کے علاوہ ایسا کچھ نہیں کیا‘ جو عوام کو مطمئن کرسکے اسلئے اب اپوزیشن کے ساتھ عوام نے بھی ’کیاہوا تیرا وعدہ‘ کا کورس شروع کردیا ہے۔
پکوڑے سے اٹھا تنازع اپنی موت آپ مرجاتا اگرراجیہ سبھا کے ممبر بننے کے بعد پارٹی صدر امیت شاہ اپنی 77منٹ کی پہلی تقریر( مودی اور شاہ کو طویل تقریریں کرنے کی بیماری ہے) میں اس کا اعادہ نہ کرتے ہوئے کہ بیکاررہنے سے بہتر پکوڑے بیچنا ہے۔ اس میں کوئی شرم نہیں ہونا چاہئے بلکہ شرم ان کو آنا چاہئے جو اس کا موازنہ گداگری سے کرتے ہیں۔ گجرات کی سابق وزیراعلی آنندی بین پٹیل ان سے بھی آگے نکلیں۔ انہو ں نے پکوڑے بنانے اور بیچنے کے ہنر کو اسکل انڈیا اور اسٹارٹ اپ انڈیا سے تعبیر کیا اور کہاکہ پکوڑے بیچ کر انسان اپنا کیرئیربناسکتا ہے۔ وہ دوسال میں ایک ریسٹورنٹ کا اور چھ اور سات سال میں ہوٹل کا مالک بن سکتا ہے۔ی ہ وہی بات ہوئی جو بات مودی اور شاہ ہمیشہ کہتے ہیں کہ جب ایک چائے والا وزیراعظم بن سکتا ہے تو؟۔ہماری دانست میں ہرکوئی مودی جیسی قسمت نہیں لاتا ورنہ اعلی تعلیمیافتہ لوگ درجہ چہارم( چپراسی) کی اسامی کے لئے درخواست دیتے نظر آتے۔
سچ یہ ہے کہ وطن عزیز اسامیو کا کال ہے او رجب کبھی مودی ‘ شاہ یاجیٹلی سے اس بار میں سوال کیاجاتا ہے تو وہ جھوٹی تسلی دے کر ٹال دیتے ہیں۔ وجہہ ظاہر ہے کہ معیشت سست روی کاشکار ہے۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے بے موقع نفاذ کا کاروبار اور ملازمت پر براثرپڑا ہے۔ غیر وصولی اثاثہ جات کی وجہہ سے بینکوں کی حالت پتلی ہے ‘ ان کا قرض دینے کی گنجائش متاثر ہوئی ہے۔ رہی سہی کسر ملک اور بالخصوص بی جے پی ریاستوں میں پھیلی نراجیت نے پوری کردی۔ نتیجتاً سرمایہ کاری کا گراف نیچے اور بیروزگاری کا تیزی سے اوپر چڑھ رہا ہے جس کے جلد ختم ہونے کے آثار نظر نہیںآتے ہیں۔ یوپی اے کے دس سالہ دور میں حالات کہیں بہتر تھے۔ مودی نے ایمپلائز پر وویڈنٹ فنڈ کی رپورٹ کے اعداد وشمار کے ذریعہ 2017-2018(جو خریب الختم ہے) میں ستر لاکھ ملازمتیں دستیاب ہونے کا دعوی کیا ہے۔
جیٹلی نے اعلان کیاکہ ان کے اقدامات کی وجہہ سے روزگار فرنٹ پر خوشگوار تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی۔ ہم انہیں طفل تسلی سے زیادہ کی اہمیت نہیں دیتے۔ فبروری7کو مودی نے اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے پارلیمنٹ کا سہارا لیا۔ صدر جمہوریہ پر شکریے کی تحریک کے دوران نوے منٹ کی تقریر کا بڑا حصہ کانگریس کو نیچا دکھانے اور خود ستائی میں صرف ہوا جس کے پس پشت گجرات الیکشن میں سیٹوں کی کمی او رراجستھان کے ضمنی الیکشن میں کانگریس کے ہاتھو ں شرمناک شکست کی جھلاہٹ کے ساتھ آئندہ ہونے والے اسمبلی اور عام انتخابات کی فکر مندی عیاس تھیں۔ امسال اٹھ ریاستوں میں الیکشن ہونے والے ہیں‘ جنہیں بی جے پی والی ریاستوں کو کانگریس کے جارحانہ تیوروں کے ساتھ حکومت مخالف رحجان کاسامنا ہے۔
ہم مودی کی تاریخ دانی کے قائل نہیں لیکن کانگریس کو نیچا دکھانے میں مودی وہ کچھ کہہ گئے جن کا حقیقت اور تاریخ سے کوئی تعلق نہیں۔اسے نگری کانگریس دشمنی کہاجاسکتا ہے۔ مثلا کوئی مورخ اس بات کو نہیں جھٹلا سکتا ہے پنڈت نہرو‘ مہاتماگاندھی کے چہیتے اور وزارت عظمیٰ کے لئے پہلی پسند تھے اور ان کے سردار پٹیل کے درمیان سیاسی رقابت کا قضیہ مودی اور بی جے پی گڑھا ہوا ہے۔ مودی کا یہ دعوی بھی تاریخ سے میل نہیں کھاتا اگر سردار پٹیل وزیراعظم ہوتے تو کشمیر پورا کا پورا ہمارا ہوتا۔
مورخین بتاتے ہیں کہ پٹیل جو ناگڑھ او رحیدرآباد کے عوض پاکستان کوپوا کشمیر دینے کے لئے تیار رتھے۔ جموں کشمیر کے ہندوستان سے الحاق کی داستان کو بڑی تفصیل کے ساتھ اکتوبر1947سے مارچ1948تک وہاں کے وزیر اعظم رہے مہر چند مہاجن نے اپنی سوانچ عمری looking backمیں درج کیا ہے جس میں بتایاگیا ہے کہ اس وقت کے راجا ہری سنگھ کشمیر کو آزاد رکھ کر ایشیاء کا سوئز ر لینڈ بناناچاہتے تھے لیکن پاکستان کے غاصبانہ اراوں اور حملے نے انہیں ہندوستان سے الحاق پر مجبور کردیا۔مہاجن کی سوانح عمری کو ہری سنگھ کے بیٹے ڈاکٹر کرن سنگھ کی توثیقی سند حاصل ہے۔
مودی نے کانگریس پر یہ الزام بھی لگایا کہ ستر سال بعد بھی ملک کے 125کروڑ عوام اس کے پاپوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ہم سے جزوی طور پر متفق ہیں۔ کانگریس کی بداعمالیوں نے مودی کو وزیراعظم بناکر ان چاربرسوں میں عوام اور بالخصوص اقلیتوں پر جو ظلم یا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔