نئی دہلی۔ کانگریس ترجمان اور سینئر وکیل ابھیشک منو سنگھوی کا ماننا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی اور بی جے پی صدر امیت شاہ کے خلاف انتخابی ضابطہ اخلاق کے متعلق کی گئی شکایتوں پر عدم کاروائی اس با ت کی طرف اشارہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے تقرر کے عمل کو بدل دینا چاہئے۔
انہوں نے اپنی تجویز میں کہاکہ الیکشن کمیشن کا تقرر کرنے والے پیانل”اپوزیشن عناصر“ کو کہنا چاہئے ٹھیک اسی طرح جس طرے سی بی ائی کے صدر‘ کارپشن واچ ڈاگ سی وی سی اور لوک پال کا تقرر عمل میں لایاجاتا ہے۔
پیش ہیں ان کے انٹرویو کے کچھ اقتباسات
سوال۔ اس الیکشن میں الیکشن کمیشن کا کونسا ایک غیرمعمولی عنصر ہے۔
آپ عام طور پر ہر شام الیکشن کمیشن سے شکایت درج کرانے کے لئے جاتے رہے ہیں؟
سنگھوی۔ میں آپ کو نیوٹن کا قانون یاد دلانا چاہتاہوں‘ ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے۔
جب خلاف ورزی عروج پر پہنچ جاتی ہے تو شکایت بھی لازمی ہے۔
اس قدر برے اندازمیں کسی بھی حکومت نے ہندوستان کی تاریخ میں مہم نہیں چلائی ہے۔
اس بات کو فراموش کیسے کرسکتے ہیں کہ ہم شکایت کردہ ہیں ملزم نہیں۔ تمام واقعات میں سوان ان دو کے جب میں وزریاعظم نریندر مودی اور بی جے پی صدر امیت شاہ کا ذکر کیاگیا ہے کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے۔
یہاں تک کے چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ کوسزا سنائی گئی ہے
سوال۔الیکشن کمیشن نے کس طرح کے قانون لاگو ہوں گے اس کے متعلق کیاوضاحت کی؟
سنگھوی۔ جب کبھی مودی اور شاہ ملوث رہے بڑی الجھن’خاموشی او رعدم کاروائی سامنے ائی۔ کسی طرح کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔
میں نے برسرعام پریس کانفرنس کرتے ہوئے مذکورہ قائدین کے خلاف کاروائی کی بات کہی مگر انتخابی ضابطہ اخلاق ”مودی ضابطہ اخلاق“ میں تبدیل ہوگیا۔میں کہاکہ کمیشن ”الیکشن اومیشن ہوگیا‘ ہے۔
ہم نے یہ بھی کہا کہ الیکشن کمیشن کے مودی او رشاہ کے متعلق جوابدہی بڑے سانحہ بن گیا ہے
سوال۔شیو سینا بانی بال ٹھاکرے کو معمولی غلطی پر چھ سال تک ووٹ ڈالنے او رالیکشن
میں مقابلہ کرنے کے حق سے محروم کردیاگیاتھا؟
سنگھوی۔ اس میں تضاد ہے۔
وہ کاروائی الیکشن کے بعد الیکشن درخواست کے ذریعہ ایک بدعنوانی پر عدالت میں داخل کی گئی تھی۔
سنوائی کے بعد ان پر کاروائی ہوئی تھی