مند ربنائے جانے کی ہڑ بڑاہٹ کیوں؟۔ بقلم شکیل شمسی

لوک سبھا کا الیکشن جیسے جیسے قریب آتا جارہا ہے ویسے ویسے کچھ سادھو سنتوں ‘ وشواہند وپریشد اور آر ایس ایس کی جانب سے ایودھیا میں اسی جگہ مند ر تعمیرکئے جانے کی ضدبڑھتی جارہی ہے ۔ جس مقام پر کبھی مسجد کھڑی تھی۔

چھبیس سال قبل جہاں پر زور زبردستی طاقت کے بل بوتے پر مسجد کو گرایاگیا اب اسی جگہ پر زور زبردستی سے مندر بنائے جانے کے لئے مودی جی کی حکومت پر مسلسل زور ڈالا جارہا ہے ۔ مودی جی کو دباؤ میں لینے کی دووجہیں ہیں۔

پہلی تو یہ کہ اگر ان کی حکومت کے زمانے میں بھی مندر بننا شروع نہیں ہوا تو پھر کسی دوسری سرکارکے آنے کے بعد یہ کام مزید دشوار ہوجائے گا۔

دوسری وجہہ یہ ہے کہ لوک سبھا کے انتخابات سے پہلے ہندوتوا وادی فورسز کی بھر پور کوشش یہی ہے کہ دلتوں سے جو دوریاں پیدا ہوگئی ہیں ان کو رام مندر کے نام پر مٹایاجاسکے او ر ایک بار پھر دلتوں کو بے وقوف بناکر ان کے ووٹ حاصل کرکے الیکشن کے بعد ان کو پھر ٹھینگا دکھایادیاجائے۔

جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ اس وقت ملک مںیاعلی ذات کے ہندوؤں کی جانب سے دلتوں کا ریزوریشن ختم کئے جانے او ردلتوں کو مظالم سے بچانے والے قوانین کو نرم بنائے جانے کی مہم چل رہی ہے ۔

جس کی وجہہ سے پورے ملک کے دلتوں میں بی جے پی کے خلاف غم وغصہ ہے۔ کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ بی جے پی ہی اعلی ذاتوں کی پشت پناہی کررہی ہے ۔ ادھر سنگھ پریوار بھی جانتا ہے کہ اگر دلت الگ رہے تو کئی جگہوں پر بی جے پی کو سخت نقصان اٹھانا پڑے گا اور 2019میں بی جے پی کی حکومت بن نہیں پائے گی ‘ اس لئے وہ مندر کا قضیہ کھڑا کرنا چاہتی ہیں‘ان کو معلوم ہے کہ جب وہ زبردستی سے مندر بنائیں گے تو مسلمان اسکی شدت کے ساتھ مخالفت کریں گے جس کے نتیجے میں فرقہ وارانہ فساد ات رونما ہوں گے اور جب ہندو مسلم لڑائی چھڑ جائے تو پھر کو ن یہ دیکھنے کا فلاں دلت ہے اور فلاں ہندو تووادی ۔

سنگھ پریوار کی دلی تمنا یہی ہے کہ ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی پھیل جائے ‘ اسی لئے وہ مندر بنانے کے نام پر ہڑ بڑاہٹ دکھا رہا ہے ۔

اب تو یہ حال ہے ہوگیاہے کہ اکھاڑہ پریشد کے سربراہ مہنت نریندر گری نے حکومت نے چیلنج دے دیا ہے کہ اگر بی جے پی نے اقتدار میں رہتے ہوئے مندر کی تعمیرنہیں کی تویہ اس کا آخر ی سال ہوگا ۔

مہنت نریندر گری نے وزیراعظم نریندر مودی کے ترقیاتی کاموں پر بھی پانی پھیرتے ہوئے کہاکہ بی جے پی والوں کو یہ غلط فہمی ہوگئی ہے کہ ہندوؤں نے انہیں وکاس کے نام پر ووٹ دئے ہیں اور آگے بھی اسی نام پرووٹ دیتے رہے گے۔

انہوں نے یہ بھی کہاکہ اگر کنبھ میلے سے قبل مندر کی تعمیرکرنے کی تاریخوں کا اعلان نہیں کیاگیا تو الہ آباد سے لے کر ایودھیا تک ناگاسادھووں کا مارچ ہوگا( واضح ہوکہ ناگاسادھو سخت سردی میں بھی مادر زاد برہنہ رہتے ہیں) لیکن ہم نے ابھی تک تو یہی دیلھا ہے کہ پچھلے پونے پانچ سال میں وزیراعظم نریندر مودی نے ایک بار بھی مندر کے نام پر نہ تو ووٹ مانگے ‘ نہ آج تک ایودھیا کا دورہ کیااور نہ ہی کبھی ایودھیا میں مندر بنوائے جانے کا کوئی وعدہ کیا اتنا ہی نہیں نریندر مودی نے بی جے پی کے ان تمام نیتاؤں کو کنارے لگادیا جو بابری مسجد کے انہدام کے ذریعہ راتوں رات ہندو لیڈر بن گئے تھے۔ ]

لال کرشن اڈوانی اور پروین توگاڑیہ جیسے ہندو تووادیوں کا جو حال مودی جی نے کیا وہ سب کے سامنے ہے ۔ شاید یہی وجہہ ہے کہ سنگھ پریوار کے کچھ لوگ مودی کا متبادل ڈھونڈ رہے ہیں۔

پہلے اترپردیش نونرمان سینا جیسی ہندوتو ا تنظیم نے مودی کو ہٹاکر یوگی کو وزیراعظم کا چہرہ بنائے جانے کا مطالبہ کیا پھر کچھ لوگوں نے مرکزی وزیر نتین گڈ گری کا نام اچھالا مگر مودی جی کو کوئی چیلنج دے سکے گا ایسا نہیں لگتا او رمودی جی کسی کے بلیک میل سے دب کر قانون وائین کو کنارے کردیں گے ایسا بھی نہیں لگتا۔

بہر کیف اگلے دو تین مہینے میں اس ملک میں زبردست سیاسی ہلچل پیدا ہوگی اور جب تک الیکشن کی تاریخوں کا اعلان نہیں ہوجاتا یہ مند کی پوٹلی کھلی ہی رہے گی۔