جواہرلا ل نہرو یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ یونین لیڈرکنہیا کمار نے ایک جلسہ عام کو خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ’’ سنگھی لوگ ایک نعرے لگاتے ہیں کہ جس کا خو ن نہ کھولا وہ ہندو نہیں ہے ‘ کنہیا نے کہاکہ دوستوزیادہ خون مت کھولاؤ ‘ اگر بخار آجائے تو دوائی لینا پڑیگا۔پہلے تو ان سنگھی لوگوں کو بتانا چاہئے کہ ہندو بچانے کا حق انہیں دیا کس نے ہے‘کیابھگوان شری رام نے تم کو ٹیلی فون کیاتھا‘کہ ہمیں رہنے کے لئے دقعت پیش آرہی ہے لہذا ہمارے لئے ایک گھر بنادو۔
کنہیا نے تقریر کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے کہاکہ میں ایک سوال ان سے پوچھتا ہوں کہ’’رام کو ماننے والے ہر من میں رام کی صورت ہے‘ تو مسجد توڑ کر مندر بنانے کی انہیں کیاضرورت ہے‘اگر کوئی رام کو مانتا ہے تو اس کو اس بات کا بھی یقین ہے کہ زمین کا ذرہ ذرہ رام کا ہے‘ او رانہیں اس میں رام دیکھائی دیتے ہیں مگر ان سنگھی لوگوں کو دیکھائی نہیں دیتے ‘ کیونکہ انہیں رام نہیں چاہئے‘ ناتھو رام چاہئے!۔
کنہیا کمار نے کہاکہ ’’ ناتھو رام کو ماننے والے لوگ جب زور سے جئے شری رام کا نعرہ لگاتے ہیں تو انہیں بلاکر کہئے گا کہ رام تو سب کے من میں ہیں‘ اس دیش کی سنسکریتی میں ہیں‘اس لئے تو کئی بار ہم لوگ رمضان میں بھی رام تلاش کرتے ہیں‘لیکن تم بتاؤ ایسی کیادقعت ہے کہ تم لوگ دھرم بچانے نکل گئے‘ ایسا کونساسنکٹ دھرم پر آگیا ہے جس کی وجہہ سے تم دھرم بچانے نکل گئے۔‘‘
۔کنہیا نے کہاکہ دھرم بچانے کی اس کہانی کو ہمیں سمجھنا پڑیگا‘ہندوستان کے اندر جب انگریز وں کی ہم پر حکمرانی تھی‘ اس دوران دھرم بچانے کی ضرورت محسوس ہوئی تھی‘کیوں‘ کیونکہ سارے لوگ ایک ساتھ ملکر انگریزوں سے دیش کو بچانا چاہتے تھے‘اسی وجہہ سے انگریزوں نے کچھ لوگوں کو خرید لیااور وہ لوگ اس وقت بھی انگریزوں کے ساتھ ملاکر چائے پر چرچا کرتے تھے اور آج بھی چائے پر ہی چرچا کررہے ہیں‘۔
چائے پر چرچا کے دوران یہ طئے کیاگیا کہ مذہبی بنیاد پر نفرت پھیلائیں گے ۔ کنہیا نے کہاکہ پوری اسکرپٹ تیار کیاگیا اور اس کی بنیاد پر بدجانور کا گوشت مسجدوں میں پھینکا گیااور گائے کا گوشت مسجدوں میں پھینکنے کاکام کیاگیا اور یہ کام ایک شخص کرتا تھا ۔ کنہیا نے کہاکہ مسجدوں میں بدجانور کا گوشت پھینکتے وقت اس کے ماتھے پر ٹیکا ہوتا جبکہ مندر میں گوشت پھینکتے وقت اس کے سرپر ٹوپی ہوتی۔
کنہیا نے کہاکہ منظم انداز میں پھوٹ ڈالوحکومت کی پالیسی پر کام کیاگیا اور1857کے تحریک آزادی کو دبایاگیااور تحریک چلاتے چلاتے جب 1942کا تحریک سامنے آئی تب دنیاکے اندر عالمی جنگ چل رہی تھی‘ پتہ چلا کے انگریز اب اس ملک میں زیادہ وقت تک حکمرانی نہیں کرسکیں توجاتے جاتے یہ فیصلہ لیاگیا کہ اس ملک کے دوتکڑے کردیں گے‘اور انگریزوں نے سب سے پہلے ہندو مہاسبھا کے لوگوں کو بلایااور ان سے انگریزوں نے کہاکہ ’’ اس ملک میں ہندوؤں کے مفادات محفوظ نہیں ہیں‘اور کانگریس جو ہے مسلمانوں کے مفاد کی بات کرتی ہے‘اور یہ جو دوقومی نظریہ ہے وہ سوارکر جی نے دیاہے ‘ میں ساورکر کو ویر اسلئے نہیں کہتا کیونکہ انہو ں نے انگریزوں سے معافی مانگ لی تھی اور انگریزوں سے معافی مانگنے والا میرے لئے ویر نہیں ہوسکتا ‘ میرے لئے ویر سولی پر چڑھ جانا والا ہے‘‘۔
مذکورہ ویڈیو نیشنل دستک نے پوسٹ کیاہے جس کی تفصیلات واضح نہیں ہیں مگر‘ کنہیاکمار کا یہ ویڈیو سوشیل میڈیاپر تیزی کے ساتھ وائیر ل ہورہا ہے۔
اس ویڈیو او رسنیں اور دیکھیں ضرور