علامہ اقبال نے اپنے زمانہ کے سماجی حالات کی عکاسی کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’ہندو کے شاعر و صورت گرو افسانہ نویس ، آہ بے چاروں کے اعصاب پہ عورت سوار ‘‘ ۔علامہ کا یہ شعر کچھ تبدیلیوں کے ساتھ آج کے ہندوستانی معاشرہ پر بھی صادق آتا ہے ۔ویسے تو لفظ ’’ عورت ‘‘ خود ہی کثیر المعانی ہے جس کی وسعتوں میں بہت کچھ سماسکتا ہے مگر موجودہ حالات کی مناسبت سے اسے ’’جنسیات‘‘ سے بدل لیں تو بات بالکل واضح ہوجاتی ہے ۔جو جنسی معاملات آج کل لوگوں کے اعصاب پر سوار ہیں ۔
ان میں نابالغہ منکوحہ کے ساتھ جنسی فعل کی ممانعت ، بالغ منکوحہ سے وظیفہ زوجیت کیلئے اس کی منظوری کی شرط ، شادی شدہ عورت کا غیر شادی شدہ مرد سے جنسی تعلق ، تیسری جنس کے قانونی حقوق ،نابالغ بچیوں سے جنسی زیادتیاں وغیرہ شامل ہیں ۔آج نجی محفلیں ہو ں یا عوامی جلسہ، اخبارات ہوں یا ٹی وی چینلس ،تعلیمی ادارے ہوں یا سرکاری محکمہ ، قانون ساز یہ ہو یا عدلیہ ، جہاں دیکھو یہی معاملات زیر بحث ہیں ۔ملکی قوانین کا اس میں عمل دخل ہے لیکن اب نئے قوانین بھی بن رہے ہیں یا بنائے جانے کے مطالبے کئے جارہے ہیں۔اور ملک کی سب سے بڑی عدالت میں بھی ایک عرصہ سے ان معاملات سے متعلق مقدمات کادور دورہ ہے ۔جنسیات میں مذہبی قوانین کا عمل دخل تو خیر ہمیشہ ہی رہا ہے ۔ قدیم ہندوستانی مقدس کتابوں میں اس سے متعلق مذہبی مسائل تو ہیں خاص اس موضوع پر کام سوتر نامی قدیم کتابیں معروف ہیں ۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سلطان احمد اصلاحی کی کتاب ’’ اسلام کانظریہ جنس ‘‘ میں جنسیات کے باریک سے باریک سوال پر مذہبی مسائل بے تکلفی سے بیان کئے گئے ہیں ۔ہمارے ملکی قوانین میں بھی جنسی معاملات سے متعلق دفعات کی کمی نہیں ہے جن میں ازدواجی قوانین کے علاوہ تعزیرات ہند بھی شامل ہے ۔سابقہ برطانوی حکمرانوں نے ۱۸۶۰ء میں تعزیرات ہند کے نام سے جو ضخیم قانون جرائم نافذ کیا تھا اس کی کئی دفعات جنسی تعلقات سے متعلق ہے ۔ان میں ایک کے تحت کسی کنواری یا شادی شدہ عورت کے ساتھ زنا بالجبر کرنے والا مرد سنگین جرم کا مرتکب ہوگا جس کی سخت سزائیں مقرر ہیں ۔واضح رہے کہ اگر دو مرد و عورت جو میاں بیوی نہیں ہیں ، کنوارے ہوں یا شادی شدہ نابالغ ہوں یا نالغ ہوں ۔اپنی آزادانہ مرضی سے آپس میں جنسی تعلق بنائیں تو یہ تعزیرات ہند یا کسی بھی ملکی قانون کے تحت جرم نہیں ہے اگر چہ تمام مذہبی قوانین میں اس کی ممانعت ہے ۔
تعزیرات ہند کی زنا بالجبر سے متعلق دفعہ میں شروع سے ہی ایک استثنا مذکو ر تھا کہ شوہر اپنی بیوی سے اس کی مرضی کے بغیر جنسی فعل کرے تو یہ زنا نہیں مانا جائے گا الا یہ کہ بیوی نابالغ ہو ۔نابالغی کی عمر جوو اس وقت ۱۲؍سال رکھی گئی تھی بعد میں بڑھا کر ۱۵؍ سال کردی گئی تھی بعد میں کچھ سماجی تنظیمیں شادی کی کم از کم قانونی عمر ۱۸؍ سال کیا ۔اول تو لڑکی کی شادی ا س عمر سے پہلے کروانا ہی جرم ہے لیکن اگر کوئی ایسا معاملہ ہوبھی گیا توشوہر کوخلوت صحیحہ کیلئے بیوی کے بالغ ہونے کا انتظار کرنا چاہئے ورنہ مجرم قرار پائے گا ۔