جموں اور کشمیر۔ جمعرات کے ربز رائزنگ کشمیر کے ایڈیٹر شجاعت بخاری کو سری نگر میں ان کے دفتر کے باہر دہشت گردوں نے گولی مارکر ہلاک کردیا۔مرکز کی جانب سے رمضان کے دوران غیرمعینہ مدت کی جنگ بندی کے فیصلے کے دوران انہیں گولی ماری گئی۔
ان کے قتل سے یہ بات صاف طور پر ظاہر ہوگئی ہے کہ جو لوگ کشمیر کے حالات کو معمول پر آنے نہیں دینا چاہتے وہ چاہتے ہیں کہ سچائی کی آواز کوبھی دبادیاجائے۔بخاری بے باکی کے ساتھ بولنے والے تھے اور وہ کشمیر میں امن مذاکرت کے لئے کی جانے والی کئی کوششوں کا حصہ بھی رہے تھے۔
وہ پاکستان کے ساتھ ٹریک ٹو عمل کا بھی حصہ رہے ہیں۔ انہوں نے دہشت گردوں کے ہاتھوں کشمیر کے عام شہریوں اورپولیس والوں کی ہونے والی اموات پر بھی سخت مذمت کا اظہار کیاتھا۔
مگردہشت گردوں کا ایجنڈہ ہے ہم او رتم کی لڑائی تشکیل دینے ہے جہاں پر کسی درمیان شخص کے کوئی جگہ باقی نہیں رہتی ہے۔ اس سونچ میں صحافت دہشت گردوں کا قدرتی نشانہ بن جاتی ہے۔
کیونکہ آزاد صحافت لوگوں کی آزاد خیالی ‘ مثبت سونچ کو فروغ دینے کا سبب بنتی ہے۔
اور یہ بھی کہ کیو ں دہشت گرد اسکولوں کونشانہ بناتے ہیں۔ یہ صرف اسلئے نہیں کہ بچوں کو دہشت گرد پتھر بازوں کے لئے اپنی ڈھال بناکر سڑکوں پر اترے ‘ بلکہ مستقبل کے کشمیر کے متعلق حکومت کی ترقیاتی اقدامات پر بھی روک لگائی جاسکے۔
اور اسلئے بھی کہ کشمیر کے نوجوانو ں کو مزید مجبور حالات سے دوچار کردیاجائے تاکہ انہیں دہشت گردی کے راستے پر آسانی کے ساتھ لایاجاسکے۔
کشمیر کے حالات کو معمول پر لانے کے لئے کی ضرورت کیاہے۔یہ وہی ہے جہاں پر حکومت اور کشمیر کی سیول سوسائٹی کے درمیان ایک معاہدہ طئے ہونا چاہئے۔
اور اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر مرکز کو جنگ بندی میں توسیع پر غور کرناچاہئے‘ وہ بھی اس بات کی یقین دہانی کے ساتھ کہ سکیورٹی فورسس کے ہاتھوں کو غیرمنصفانہ انداز میں باندھنا نہیں ہے۔
مگر تمام شعبوں سوائے دہشت گردی کے نے ا س بات کو قبول کیاہے کہ آزاد صحافت ان کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس کا مزید طاقتور انداز میں تحفظ ناگزیر ہے۔