ئی دہلی۔ اس مرتبہ اترپردیش کے دیواریا ضلع سے شیلٹر ہوم میں معصوم بچیوں کے جنسی استحصال کا واقعہ سامنے آیا ہے‘ جس کے متعلق مرکزی وزیر برائے خواتین واطفال منیکا گاندھی کو قبول کرتے ہوئے کہاکہ اس طرح کے واقعات نہیں ہونے چاہئے
۔شریمتی گاندھی نے کہاکہ ’’ حکومت کی نگرانی میں چلائے جارہے کئے شیلٹر ہوم کے متعلق غفلت برتی جارہی ہے‘‘۔
مذکورہ خواتین واطفال کی وزیر 2015سے لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے تمام 700اراکین پارلیمنٹ سے تحریری درخواست کررہی ہیں وہ اپنے حلقوں کے شیلٹرس ہوم جاکر ان کا معائنہ کریں ‘ اور وہاں پر رہنے والے بچوں کے حالات کا جائزہ لیں او رکس طرح کاماحول پیدا کیاجارہا ہے جس کی جانچ کریں۔
شریمتی گاندھی نے تمام اراکین پارلیمنٹ کو اپنے لیٹر میں لکھا ہے کہ’اپنی سطح پر ان شیلٹر ہوم کی جانچ وہا ں پر رہنے والے بچوں اور خواتین کی حفاظت کو یقینی بنانے میں مدد گار ثابت ہوگی۔ اور آپ رپورٹس او رتجاویز کی بنیاد پر میرے لئے بھی ان شیلٹرس ہوم کے حالات سدھارنے میں مدد ملے گی‘۔
منیکا گاندھی کے مطابق آج کی تاریخ تک کسی بھی رکن پارلیمنٹ نے جواب نہیں دیا۔انہوں نے مزید کہاکہ’ریاستی اداروں کی جانب بہت کم ہی نگرانی کی جارہی ہے۔مظفر پور او ردیواریا جیسے مزید واقعات سامنے آتے ہیں تومیرے لئے کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی‘۔
منگل کے روزاترپردیش حکومت نے بتایا کہ دیواریا شیلٹر ہوم میں 24نابالغ لڑکیو ں کا جنسی استحصا ل کیاگیا ہے۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سی بی ائی بہار کے مظفر پور کے ایک شیلٹر ہوم میں معصوم بچیوں کے جنسی استحصال کے واقعہ کی جانچ کررہی ہے۔
ملک بھر میں لڑکیو ں اور خواتین کے لئے حکومت کی نگرانی میں چلائے جانے والے 9ہزار شیلٹرہوم ہیں۔ جس کے لئے مرکز سے ساٹھ فیصد رقم فراہم کی جاتی ہے او رماباقی رقم ریاستی انتظامیہ ادا کرتا ہے۔ عام طور پر ریاستی محکمہ ہوم چلانے کے لئے کسی این جی او کی تلاش کرتا ہے۔
اس کے لئے شیلٹر پوری طرح سے حکومت کے پیسے پر چلتے ہیں۔ دیورایا اور مظفر پور کے شیلٹر ہوم اس کی ایک مثال ہیں جس کو اترپردیش اور بہار حکومت کی جانب سے فنڈ مہیا کرایاجاتاتھا۔ ان میں سے کئی شیلٹرس خراب حالت میں چل رہے ہیں۔
ڈبیلو سی ڈی منسٹر ی کے ایک عہدیدار جس نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ہے کہ ’اگرچہ کہ مرکزکی جانب سے 60فیصد کی رقم جاری کردئے جانے کے بعد ان مراکز و کوئی فنڈس پچھلے دوسالوں میں ریاست کی طرف سے نہیں ملے ہیں‘