لکھنؤ: یوگی حکومت میں نظم و نسق کو درست کرنے کے لئے انکاؤنٹر کو اہم ہتھیار کے طورپر استعمال کر رہی ہے باوجود اس کے کہ قومی انسانی حقوق کمیشن بار بار اس کی اس پالیسی پر اعتراض جتاتے ہوئے اس سے وضاحت طلبی کے لئے نوٹس جاری کرتا رہاہے۔
اب الٰہ آباد ہائی کورٹ نے بھی انکاؤنٹر پر سوال اٹھایا ہے۔کورٹ نے حکومت سے سوال کیا کہ کیاپولیس کے پاس کسی کو بھی گولی مادینے کا لائیسنس ہے؟کورٹ نے حکومت کو جواب دینے کے لئے تین ہفتہ کو مہلت دی ہے۔
عدالت کا یہ تبصرہ مظفر نگر کے فرقان انکاؤنٹرمعاملہ میں آیا ہے جس کی بدھ کو سماعت ہوئی ۔فرقان کے والد میر حسن کے پٹیشن پر جسٹس جوڈیشیل مجسٹریٹ کو یہ حکم بھی دیا کہ وہ ان ۱۶ ؍پولیس او رایس ٹی ایف اہلکاروں کو نوٹس جاری کریں جن کے نام اس آپریشن میں ہیں۔پٹیشنر کے مطابق ان کے بیٹے کو بازارسے اٹھالیا گیاتھا جب وہ اپنے سسرال کیرانہ میں اپنی اہلیہ کے ساتھ شاپنگ کرنے گیا تھا۔اس کے بعد پولیس نے اسے مار مار کر ہلاک کردیا ۔پولیس نے کہا کہ اسے مڈ بھیڑ میں مارا گیا۔میر حسن کے مطابق اگر مڈ بھیڑ میں مارا بھی گیا تھا تو پولیس کئی دنوں تک اس کی لاش انہیں سونپنے سے کیوں ہچکچاہٹ دکھاتی رہی اور پوری بات کیوں چھپاتی رہی ۔پولیس کا دعوی ہے کہ فرقان نے ۵۰؍ ہزار کا سرقہ کیا۔واردات کے بعد وہ فرار ہورہاتھا جب اسے روکنے کی کوشش کی تواس نے فائرنگ کردی جس کے جوابی فائرنگ میں وہ ماراگیا۔میر حسن کے وکیل سید فرمان نقوی کا کہنا ہے کہ پولیس کی کہانی من گھڑت ہے اور اس میں کافی تضاد ہے۔یہ انکاؤنٹر دسمبر ۲۰۱۷ء میں ہو ا تھا جس کے خلاف میر حسن نے چیف مجسٹریٹ مظفر نگر میں مقدمہ درج کرکے اسے فرضی بتاتے ہوئے اس میں شامل پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی مانگ کی تھی۔سی جے ایم نے یہ کہتے ہوئے عرضی مسترد کر دی تھی کہ فرقان سارق تھا اوروہ کئی سنگین معاملوں میں ملوث تھا ۔ غور طلب با ت یہ ہے کہ ایک سالہ یوگی دور حکومت میں ہی ۱۴۰۰؍ سے زائد انکاؤنٹر کئے جاچکے ہیں۔