محکمہ انصاف نے ضلع مجسٹریٹ کو مکتوب ارسال کیا۔ نو کریمنل کیسوں کو واپس لینے کے لئے تیرہ نکات پر مانگا مشورہ
لکھنو۔ پوری ملک کودہلادینے والے مظفر نگر فسادات کے ملزمین پر سے مقدمات واپس لینے کی تیاریاں تیزی ہوگئی ہیں۔حیران کن بات یہ ہے کہ انہیں عدالتی کٹہرے میں کھڑے ہونے سے بچانے کی یہ پہل ریاستی حکومت کے محکمہ انصاف کررہا ہے۔ محکمہ اسپیشل سکریٹری نے مظفر نگر کے ضلع مجسٹریٹ کو باضابطہ ایک خط لکھ کر ان سے پوچھا ہے کہ کیا عوامی مفادات میںیہ مقدمہ واپس لئے جاسکتے ہیں۔
جنوری5کو بھیجے گئے اس خط میں اسپیشل سکریٹری محکمہ انصاف راک سنگھ نے منجملہ تیرہ نکات پر ضلع مجسٹریٹ سے جواب مانگا ہے۔ اس میں سب سے خاص بات یہ ہے کہ محکمہ عوامی مفادات کی بنیاد پر یہ مقدمہ واپس لینا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں ضلع کے ایس ایس پی کی بھی رائے مانگی گئی ہے۔ حالانکہ اس خط میں کسی بھی ملزم کا نام نہیں ہے مگر فائل نمبر وہی ہے جو ان فسادات سے متعلق معاملوں میں کئی بی جے پی اور بھگوا لیڈران ملزم ہیں۔
ان ملزمین میں مرکزی وزیر سادھوی پراچی وریاستی وزیر مملکت سریش رانا ‘ سابق مرکزی وزیر سنجیو بالیان ‘ ایم پی بھارتیند وسنگھ اور ممبر اسمبلی امیش ملک جیسے بڑے نام شامل ہیں۔ ان کے خلاف تعزیزات ہند کی حکم امتناعی کی خلاف ورزی کرنے‘ سرکاری ملازمین کو فرض کی ادائیگی سے روکنے جیسی دفعات کے تحت معاملے درج ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ مہاپنچایت کرکے انہو ں نے ماحول کو بگاڑ اور ایک مخصوص فرقہ کو ایک وسرے فرقہ کے خلاف اشتعال بیان بازی کرکے اکسایا۔ معاملے کی جانچ کرنے والی ایس ائی ٹی نے جن دومعاملوں میں چارچ شیٹ دائرکی ہے ان میں سریش رانا سمیت 22لوگوں کے نام ہیں۔
غور طلب ہے کہ اگست ستمبر 2013میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات میں سے ایک مانے جاتے ہیں۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ساٹھ سے زائد ہلاکتیں ہوئی تھیں جبکہ چالیس ہزار سے بھی زیادہ لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے۔ مہلوکین اور تباہی جھیلنے والوں میں بیشتر اقلیتی فرقہ کے لوگ تھے۔ان میں سے درجنوں متاثرہ خاندان آج بھی اپنے گاؤں واپس نہیں جاسکے ہیں او رکسمپرسی کی حالت میں کیمپوں میں زندگی جینے پر مجبور ہیں۔
اس وقت ریاست میں اکھیلیش یادو کی قیادت والی سماج وادی حکومت تھی جو مسلم نواز مانی جاتی تھی اور جسے منصب اقتدار تک پہنچانے میں مسلمانوں کا اہم کردار تھا۔ ان فسادات کے دوران جہاں بی جے پی او ردیگر بھگوا تنظیمیں بے حد متحرک تھیں وہیں نام نہاد سکیولر پارٹیاں خاموشی اختیار کئے ہوئے تھیں۔