وہ شخص جس نے مسلم ڈرائیور کے سبب اولا کار منسوخ کیا ہے کا ہے دعوی ہے کہ وہ وشوا ہندو پرشد اور بجرنگ دل کا کارکن ہے۔ دونوں تنظیموں کا شکار بی جے پی کے نظریاتی ادارے راشٹرایہ سیوم سیوک سنگھ کی ذیلی تنظیموں میں ہوتا ہے اور وہ بجرنگ دل کے ائی ٹی سل کی ذمہ داری بھی نبھاتا ہے۔
اپریل20کے روز اس نے اعلان کیا تھا کہ وہ محض اس لئے اولا گاڑی کو منسوخ کردیا کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ ’’جہادی لوگوں‘‘کو اس کا پیسہ جائے۔اس نے ساتھ میں منسوخی کا اسکرین شاٹ بھی لے کر پوسٹ کیا جس میں ڈرائیور کا نام مسعود عالم دیکھاگیا۔ٹوئٹر پر کئی لوگوں نے اولا سے ابھیشک مشرا کو ممنوعہ قراردینے کا مطالبہ کیا۔
So this bigot who cancelled Ola ride coz driver was a Muslim, is a SM consultant at Ministry of Transport, @UPGovt ! And previously was with Ministry of Commerce, GOI ! Do we expect any action by @myogiadityanath ? pic.twitter.com/v38MeCddRd
— कोमल 🙂 🇮🇳 (@Komal_Indian) April 22, 2018
Dear @Olacabs, if u don't believe in racial or religious discrimination of your employees, please block this moron's Ola account. https://t.co/OqhucFRNrK
— Kapil (@kapsology) April 22, 2018
@Olacabs requesting Ola to ban this guy immediately from ur passenger list and black list him 👇or Ola should tell us they encourage this behaviour o discrimination towards their drivers. https://t.co/HyiDSQyI64
— Midhat kidwai (@midhatkidwai) April 22, 2018
کئی لوگوں نے کہاکہ ٹیکسی کا استعمال کرنے والوں کی اس پر عدم توجہہ ہی مشرا کی ٹوئٹ پر بڑا پیغام ہے۔جبکہ دیگر نے مشرا کے اترپردیش حکومت کے قریبی تعلقات کی بناء پرچیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ سے مطالبہ کیا کہ مشرا کے خلاف سخت کاروائی کرے۔اولا کیبس نے کہاکہ ’’ اولا ہمارے ملک کو ایک سکیولر پلیٹ فارم مانتا ہے‘ ہم ہمارے ڈرائیورس‘ کسٹمرس اور پارٹنرس کے ساتھ مذہب‘ ذات ‘ جنس او رنسل کے ساتھ امتیاز نہیں کرتے۔
ہم ہمارے تمام کسٹمرس اور پارٹنر ڈرائیورس پر زور دیتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کا احترام کریں‘‘۔ ابھیشک مشرا کا فیس بک پروفائل سے پتہ چلتا ہے کہ اس کاتعلق ایودھیا سے ہے اور وہ لکھنو میں ائی ٹی کے پیشہ سے وابستہ ہے۔ اسکا دعوی ہے کہ وہ وشواہند وپریشد او ربجرنگ دل کا سرگرم رکن ہے۔
If this views acceptable then why my views are not acceptable ? pic.twitter.com/170MWQuBpn
— Abhishek (@Abhishek_Mshra) April 22, 2018
مشرا کے دوسرے پیغام جس میں اس نے لکھا کہ’’ لوگ مجھ پر حملہ کررہے ہیں کیا مجھے انتخاب کا حق نہیں ہے؟ اگر وہ لوگ کار پر ہنومان جی کے پوسٹر کے خلاف مہم چلاتے ہیں‘ کتھوا معاملے میں ہندو دیوی دیوتاؤں کا مذاق اڑاتے ہیں تو پھراس طرح کے جواب کے لئے وہ تیار ہوجائیں‘‘جس کے فوری بعد مشرا کے اس مسیج کے جواب میں کئی او رپیغام ٹوئٹر پلیٹ فارم پر منظرعام میں ائے۔کچھ او رٹوئٹرصارفین نے مشرا کے اقدام کے دفاع میں ’’اظہار خیال کی آزادی‘‘ قراردیتے ہوئے‘ دیگر سوشیل میڈیا صارفین کے اسی طرح کے ٹوئٹس پر مشتمل اسکرین شاٹ بھی پوسٹ کئے
ابھیشک مشرا کا یہ ٹوئٹ وائیرل ہونے کے بعد ایک تصوئیر بھی سوشیل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمس پر ایک تصوئیر تیزی کے ساتھ وائیرل ہورہی ہے جس میں مشراء بڑی مسرت کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی سے مصافحہ کرتے ہوئے دیکھایاجارہا ہے ۔ صارفین کا کہنا ہے کہ مذکورہ تصوئیر مشراء کے بی جے پی ٹرول ٹیم کا حصہ ہونے کا واضح ثبوت ہے
You must be logged in to post a comment.