لکھنؤ: بابری مسجد کے بارے میں صلح کی پیش کش کر نے کے بعد آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی رکنیت کھو چکے مو لانا سلمان ندوی نے بورڈ پر حملے کرتے ہوئے کہا کہ بورڈ اویسی کی گود میں چلا گیا ہے۔انھوں نے کہا کہ اس بورڈ میں سخت گیر لوگ اس قدر حاوی ہوگئے ہیں کہ علماء بزرگ معزز ہستیاں خاموشی اختیار کر لیتے ہیں ۔حیدر آ باد میں حالیہ اجلاس میں یہی ہوا۔مجھے اپنا موقف رکھنے نہیں دیا گیا۔جبکہ مولانا ارشد مدنی ، مولانا سید محمد رابع حسنی بھی خاموش رہے۔مولانا کلب صادق آئے ہی نہیں ۔اس اجلاس میں کمال فاروقی اور اسد الدین اویسی جیسے لوگ ہی بولتے رہے۔
سلمان ندوی نے ایک روزنامہ کو دئے گئے انٹر ویو میں یہ بات بتائی۔انھوں نے کہا کہ اجلاس میں کمال فاروقی کے الفاظ دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ ان کی نظروں میں انسانی جانوں کی کیا اہمیت ہے۔کمال فاروقی چیخ چیخ کر بول رہے تھے کہ مسجد وہیں بنائیں گے خواہ اس کے لئے جان ہی کیو ں نہ دینی پڑے۔سلمان ندوی نے کہا کہ انہیں مسجد کی اتنی فکر ہے مگر ان بے قصور وں کی کوئی فکر نہیں ہے جو بابری مسجد کی شہادت کے بعد فسادات میں مارے گئے۔
یہ لوگ ان کا مقدمہ کیو ں نہیں لڑتے۔سلمان ندوی نے کہا کہ ان کی عقیدت قرآن میں ہے ۔حدیث میں ہے۔وہ صرف انہیں ہی مانتے ہیں کسی پرسنل لاء بورڈ کو نہیں۔ان کی بات کونہیں مانتے اور نہ ہی وہ ان پر ایمان لائے ہیں۔سلمان ندوی نے دعوی کیا کہ ملک کی عوام ان کے ساتھ ہے۔اور یہ بات ایک سال کے اندر ثابت ہو جائیگی۔ایو دھیا میں مجوزہ میٹنگ کے تعلق سے ان کا کہنا ہے کہ ۲۰ فروری کی تاریخ مقرر کی گئی ہے مگر ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔
انھوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ہولی سے پہلے ہندوستانی قوم کو خوشخبری ملے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ وہا ں علماء کے ساتھ جائیں گے ،شری شری روی شنکر بھی تمام ساوھوں کیے ساتھ آئیں گے۔سب سے کھلے دل سے بات ہوگی ۔او روہاں کے عوام سے بھی بات کریں گے۔انھوں نے کہا کہ حنبلی مسلک میں جب مسجد منتقل کر نے کی اجا زت ہے توپھر اس میں کیا برائی ہے۔
ہم کیوں نہ ا س بات پر آگے بڑھیں اور ایک ایسا راستہ نکا لیں جس سے ملک میں امن و امان سلامتی بھائی چارہ ہو۔سلمان ندوی کا کہنا ہے کہ وہ نریندر مودی اور یوگی ادتیہ ناتھ سے ہی نہیں بلکہ تمام فریقین سے ہندوؤواور مسلمانوں سے بات کرنا چاہتے ہیں تا کہ اس مسئلہ کا جلد حل نکا لا جائے گا۔انھوں نے کہاکہ س مسئلہ پر بہت خون خرابہ ہو چکا ہے ، پچھلے ۲۵ سال سے یہ معاملہ لٹکا ہوا ہے ۔
آخر کب تک ایسا ہوتا رہے گا۔انھوں نے مزید بتا یا کہ شری روی شنکر ان تینوں شرائط پر راضی تھے جن میں سے بابری مسجد کی شہادت کے قصور واروں کو سزا ملنی چاہئے۔۷۰ بیگھے کی بجائے مسلمانوں ۱۴۰ بیگھے زمین ملنی چاہئے۔اور بابری مسجد کی جگہ کی منتقلی کے بعد ملک میں کسی بھی حصہ میں کسی بھی مسلم عبادت گاہ اور مدارس سے چھیڑ چھاڑ نہیں ہونی چاہئے۔