مسلم ووٹوں کی تقسیم بی جے پی کے لئے موقع بن سکتی ہے۔

لکھنو:اس سے زیادہ بی جے پی کے لئے خوشی کی بات کیاہوگی کہ بھگوا پارٹی جب کبھی مسلم امیدواروں کی ایک بڑی تعداد مقابلہ میں ائے تب رائے دہندوں کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کرتے ہوئے ریاست اترپردیش میں اپنی پارٹی امیدواروں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں آسانی ہی ہوئی ہے۔

اگر ماضی کاریکارڈ دیکھیں تو ہمیں اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہوجائے گا کہ بی جے پی اس وقت بہت زیادہ فائدہ ہوا جب ریاست میں مسلم ووٹ بڑی تعداد یاتو مشتعل کئے گئے یا پھر تقسیم ہوئے ہیں۔

جبکہ بی ایس پی نے 99مسلم امیدواروں کو میدا ن میں اترا ہے اور سماج وادی پارٹی خود کو مسلمانوں کا بڑا ہمدرد قراردی رہی ہے اسی طرح ایم ائی ایم نے بھی چند سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کئے ہیں

۔سال2010کے انتخابات میں 26سیٹوں پر مسلم امیدواروں کو شکست ہوئی کیونکہ مقابلے مسلم امیدواروں کے درمیان میں ہی تھا۔مذکورہ سیٹوں میں سے کئے ایک پر امیدواروں کو بہت کم ووٹ سے شکست کاسامنا کرنا پڑا۔سہارانپور کی ناکوڈ سیٹ پر بی جے پی کے دھرم سنگھ سینی کامیاب ہوئے کیونکہ وہاں پر کانگریس کے عمران مسعود اور سماج وادی پارٹی کے فیروز آفتاب بھی امیدوار تھے۔

فیروز کو 30,000ووٹ ملے جبکہ عمران ‘ دھرم سنگھ سینی سے صرف 4000ووٹو ں سے ہار گئے۔یہاں پر تھانے بھون سیٹ پر بڑا ہی دلچسپ مقابلہ ہوا جس پر بی جے پی کے سریش راناکو جیت ملی‘ جن پر مظفر نگر فسادات میں اہم رول ادا کرنے کا الزام عائد ہے‘ انہوں نے 265ووٹ سے کامیابی حاصل کی ‘ ان کے مقابلے میں آر ایل ڈی امیدوار اشرف علی خان اور بی یس پی کے عبدالورث سے تھا جنھوں نے بالترتیب53,000اور50,000ووٹ لئے۔

بی جے پی کے سابق ریاستی صدر لکشمی کانت باجپائی میرٹھ سے جیت کر ائے کیونکہ یہاں پر بھی مسلم ووٹ بڑے پیمانے پرتقسیم ہوئے۔اسی طرح کچھ اور سیٹوں پر جیسے سہارانپور سٹی( بی جے پی) گنگوہ( کانگریس) کیرانہ( بی جے پی) بنجور( بی جے پی)‘ بور پور( بی جے پی) اسمولی( ایس پی) میرٹھ ساوتھ( بی جے پی) سکندرآبند( بی جے پی)آگرہ ساوتھ( بی جے پی)اور فیروز آباد( بی جے پی) شامل ہیں۔

اترپردیش کے اہم انتخابات میں ایک مرتبہ پھر مسلم ووٹوں کی تقسیم بی جے پی کے لئے فائدہ مند ہوسکتی ہے۔سوار سیٹ پرموجودہ رکن اسمبلی نواب کاظم علی خان جنھوں نے کانگریس پارٹی سے ٹکٹ نہ ملنے پر بی ایس پی میں شمولیت اختیار کرلی ہے اور سماج وادی پارٹی لیڈر اعظم خان نے بیٹے عبداللہ اعظم کے درمیان میں دلچسپ مقابلہ ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے کٹر حریف مانے جاتے ہیں اور کامیاب کے لئے کوئی موقع گنوانے کے لئے تیار نہیں ہیں

۔بی جے پی نے یہا ں سے لکشمی سینی کواپنا امیدوار بنایا ہے۔میرٹھ ساوتھ پر بی ایس پی امیدوار حاجی یعقوب قریشی ‘ ایس پی کانگریس اتحادی امیدوار آزاد سیفی کے درمیان کڑی مشقت جاری ہے اور اقلیتی برداری کو اپنی کامیابی کے لئے آمادہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

بی جے پی امیدوار سومیندرا تومر بھی مسلم ووٹوں کی تقسیم کا استفادہ اٹھاتے ہوئے اپنی کامیابی پر نذر جمائے ہوئے ہیں۔ علی گڑہ سٹی کی سیٹ پر ہندوتوا لیڈر کی شبہہ رکھنے والے سنجیو راجہ کو مسلم ووٹوں کی تقسیم کا فائدہ ہوسکتا ہے۔علی گڑسٹی کے سیٹ سے بی ایس پی امیدوار عارف عباسی ہیں تو ایس پی نے موجودہ رکن اسمبلی ظفر عالم کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔

ایک اور حلقہ اگرہ ساوتھ سے تین مسلم امیدوار ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو بی ایس پی کے ٹکٹ پر مقابلہ کررہے ہیں ‘ کانگریس نے نظر احمدکو اپنا امیدوار بنایا ہے اور ادریس کو ایم ائی ایم نے ٹکٹ دیا ہے۔

بی ایس پی نے یوگیندر اپادھیائے کو ٹکٹ دیکر مسلم ووٹوں کی تقسیم کے سبب اپنے امیدوار کی کامیابی کے دعوی کررہی ہے۔فیروز آباد سے بی جے پی کے موجودہ رکن اسمبلی منیش اسیجا کا مقابلہ بی یس پی کے خالد نصیر ‘ ایس پی کے اعظم بھائی اور اے ائی ایم ائی ایم کے احتشام اس سیٹ پر کامیابی حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔

اسی طرح کے حالات غازی آباد کے لونی سیٹ کے بھی ہیں جہاں پر بی ایس پی کے موجود ہ رکن اسمبلی ذاکر علی کے مقابلے راشد ملک ( ایس پی) ہیں جبکہ آر ایل ٹی نے مدن بھیا کو ٹکٹ دیا ہے اوربی جے پی کے نند کشور گجر کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔

بادایون ‘ کانپور کنٹونمنٹ‘ لکھنو( ویسٹ) کے حالات بھی اسی طرح کہ ہیں جہاں پر مسلم امیدوار ایک دوسرے کے مقابلے ہوکر اپوزیشن جماعت کو مواقع فراہم کررہی ہیں۔
PTI