مسلم عہدیدار طلاق ثلاثہ بل کے حق میں جبکہ پراوین کمار نے شریعت کی تائید کی چندرا بابو نائیڈو کی موجودگی میں نوک جھونک

یوسف شریف آئی ایف ایس نے سورۂ نساء کا حوالہ دیا
مسلمانوں کی ناراضگی سے بچنے محتاط رویہ اختیار کرنے چیف منسٹر کی ہدایت

حیدرآباد۔ 3 جنوری(سیاست نیوز) چیف منسٹر آندھراپردیش این چندرا بابو نائیڈو 2019ء کے عام انتخابات میں مسلمانوں کی تائید حاصل کرنے پر خصوصی توجہ مرکوز کرچکے ہیں۔ انہوں نے طلاق ثلاثہ کے مسئلہ پر پارلیمنٹ میں پارٹی کے موقف کا فیصلہ کرنے سے قبل علماء اور ماہرین قانون سے رائے طلب کی اور کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے موقف پر نظر رکھنے کا مشورہ دیا تاکہ سیکولر جماعتوں کے ساتھ تلگودیشم شامل ہوسکے۔ باوثوق ذرائع نے بتایا کہ پرنسپل سکریٹری اقلیتی بہبود پراوین کمار نے مختلف علماء، مسلم تنظیموں اور ماہرین قانون کی رائے پر مشتمل رپورٹ چیف منسٹر کو پیش کی جس میں تجویز پیش کی گئی کہ مسلمانوں کے جذبات کو ملحوظ رکھتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرنسل لا بورڈ کے موقف کی تائید کی جائے۔ دلچسپ بات تو یہ تھی کہ جس وقت چیف منسٹر کے پاس طلاق ثلاثہ بل پر پارٹی موقف پر غور کیا جارہا تھا، چیف منسٹر سکریٹری احمد بابو آئی اے ایس جن کا تعلق کیرالا سے بتایا جاتا ہے، انہوں نے بل کی تائید کا مشورہ دیا جبکہ پرنسپل سکریٹری اقلیتی بہبود پراوین کمار نے علماء کی رائے کے مطابق عمل کرنے کی صلاح دی۔ ذرائع کے مطابق ایک مرحلہ پر احمد بابو نے یہاں تک کہہ دیا کہ قرآن مجید میں طلاق کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ اجلاس میں موجود وقف بورڈ کے عہدیدار مجاز یوسف شریف آئی ایف ایس نے فوری مداخلت کی اور کہا کہ سورۂ نساء میں طلاق کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔ انہوں نے احمد بابو سے سوال کیا کہ کیا وہ قرآن نہیں پڑھتے۔ چیف منسٹر کی موجودگی میں عہدیداروں کے درمیان اس نوک جھونک کے بعد چندرا بابو نائیڈو نے فیصلہ کیا کہ ان کی پارٹی بل کی تائید نہیں کرے گی۔(

مسلم عہدیدار طلاق ثلاثہ بل کے حق میں جبکہ پروین کمار نے شریعت کی تائید کی( بہ سلسلہ صفحہ آخر )کانگریس پارٹی جس طرح ترمیمات کے ساتھ بل کی تائید کررہی ہے اسی طرح تلگودیشم کو بھی ترمیمات پیش کرنے چاہئے۔ لوک سبھا میں بل پر مباحث کے لیے املاپورم کے رکن پارلیمنٹ رویندر بابو کے نام کو قطعیت دی گئی۔ چیف منسٹر خود بھی اس بات پر حیرت میں تھے کہ مسلم آئی اے ایس عہدیدار شرعی امور سے لا علم ہیں جبکہ غیر مسلم عہدیدار مسلم پرسنل لا بورڈ کے موقف کی تائید کررہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ مرکزی وزارت سماجی بھلائی کی جانب سے تمام ریاستوں کو مکتوب روانہ کیا گیا اور بل پر رائے طلب کی گئی۔ 9 اور 10 ڈسمبر کو یہ مکتوب وصول ہوا جبکہ 11 ڈسمبر کو مرکزی کابینہ نے بل کو منظوری دے دی۔ لہٰذا آندھراپردیش حکومت نے اپنی رائے روانہ نہیں کی۔ پارلیمنٹ میں بل کی پیشکشی کے بعد پرنسپل سکریٹری اقلیتی بہبود پروین کمار نے چیف منسٹر کو رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ میں تجویز پیش کی گئی کہ بل کے بارے میں قطعی موقف اختیار کرنے سے قبل مسلم پرسنل لا بورڈ سے مشورہ کیا جائے جو مسلمانوں کا نمائندہ ادارہ ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ محکمہ اقلیتی بہبود کی جانب سے مختلف علماء سے اس مسئلہ میں رائے حاصل کی گئی تھی۔ ان میں مولانا مفتی عبدالباسط گنٹور، مولانا محمد یوسف وجئے واڑہ، مولانا عبدالقدری خطیب شاہی مسجد وجئے واڑہ، عبدالمتین وجئے واڑہ، جوہر علی کاکیناڈا، محمد الیاس نندیال، ڈاکٹر عبدالماجد کرنول، تمام ایڈوکیٹس کے علاوہ سابق اسپیشل چیف سکریٹری شفیق الزماں اور شرعیہ کونسل شامل ہیں۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی سے ربط قائم کیا گیا تھا لیکن وہ مصروفیت کے باعث رائے نہیں دے سکے۔ صدرنشین قانون ساز کونسل این محمد فاروق اور رکن کونسل احمد شریف نے علیحدہ طور پر چیف منسٹر سے نمائندگی کرتے ہوئے مسلمانوں کے جذبات سے واقف کرایا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ لوک سبھا میں ترمیمات کے باوجود بل کی تائید سے آندھراپردیش کے مسلمانوں میں حکومت کے تعلق سے ناراضگی پائی جاتی ہے۔ کانگریس پارٹی نے بھی بل کی تائید کی جس کا اثر تلگودیشم پر پڑا۔ ان حالات میں مسلمانوں کی مزید ناراضگی سے بچنے کے لیے چندرا بابو نائیڈو نے راجیہ سبھا میں انتہائی احتیاط کے ساتھ موقف اختیار کرنے کی ہدایت دی ہے۔