مسلم امیدوار کو کامیابی سے ہمکنار کرکے لوگوں نے اتاری ارتی‘ تیسرے نمبر پر بی جے پی۔ والد نے کہاکہ یہ ہے اصلی ہندوستان

ترپردیش۔گجرات الیکشن ترقی کے موضوع سے ہٹ کر اب مذہب کی سیاست بن گیا ہے۔ تقریبا ہر بیان مندر مسجد ہندومسلم جیسے فرقہ پرست باتوں کو اونچائی دے رہا ہے‘ لیکن مندر کا موضوع تو مانو جیسے بھارتیہ جنتا پارٹی کے لئے اترپردیش میں اتنا کامیاب نہیں رہا ۔ اترپردیش کے مجالس مقامی انتخابات میں جہاں پر بی جے پی نے 16میں سے 14میونسپل کاپوریشن پر جیت حاصل کی وہیں بگر پالیکا اور نگر پنچایت میں بڑے پیمانے پر پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

معاشرے کو ذات او ردھرم کی بنیا د پر باٹنے کی سیاست کی کوششوں کے بیچ اٹاوا ضلع میں ایک ایسا مسلم نوجوانوں امیدوار کو جیت ملی ہے جہاں پر ایک سو سے بھی کم مسلم رائے دہندے ہیں۔ضلع کے قصبہ بھرتھانے کی نگر پالیکا سیٹ ایس پی کے حق میں گئی ۔ یہاں کے وراڈ نمبر12سے آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات میں کھڑے 26سال کے اعظم شانونے 342ووٹوں سے جیت حاصل کی ہے۔

قابل غور بات ہے کہ محض 1500ووٹوں کے اس گاؤں میں650یادو ہیں‘ جبکہ وارڈ میں ایک اور آزاد امیدوار پرہلاد یاد تھے‘ جو خود کو ایس پی کا حامی بتارہے تھے جو تین سو ووٹ حاصل کرنے کے بعد تیسرے مقام پر رہے۔

پرہلاد کے بجائے یادو طبقے کے لوگوں نے اعظم کی کھل کر حمایت کی ۔ بی جے پی کے امیدوار سنجیو گپتا176ووٹ حاصل کرتے ہوئے تیسرے مقام پر رہے۔ اس کے علاوہ وارڈ میں ویشیا طبقے کے ووٹرس کی بھی اچھی خاصی تعداد موجود ہے جو کہ بی جے پی کا روایتی ووٹر مانا جاتا ہے۔

الیکشن جیت کر جب اعظم شانوعوام سے گھر گھر ملاقات کے لئے پہنچے تو گاؤں کی کئی عورتوں نے ارتی اتار کر ان کا استقبال کیا۔ایک مسلم امیدوار کی آرتی اتار کر اس کو تلک لگانے کی بات پوری ضلع کے لئے بحث کا موضوع بن گیا۔علاقے کے لیڈروں کی نظر اس سیٹ پر لگی ہوئی تھی۔

مقامی صحافی سید شاکر علی کے بیٹے اعظم شانو کی کہنا ہے کہ انہوں نے خلوص دل کے ساتھ لوگوں سے ملاقات کی اور ملاقات کے دوران ہی ان کے مسائل بھی نوٹ کئے جبکہ دیگر سیاسی پارٹیاں ذات ‘ مذہب کی بنیادپر نشانہ بناتے ہوئے تنقید کا بھی نشانہ بنایا لیکن رائے دہندوں نے ان کی دلیلوں کو ٹھکرادیا۔ووٹ مانگنے کے دوران بیس سے پچیس لو گ ساتھ ہوتے تھے مگر گھر کے علاوہ کوئی اور مسلمان ان کے ساتھ نہیں ہوتاتھا۔

اس جیت نے گنگا جمنی تہذیب کو زندہ رکھا ہے۔گاؤں کے شیلندر یاد اور رام برن یادو کہتے ہیں کہ ہم صحیح کا چناؤ چاہتے تھے اور وہی ہوا ۔ یادو طبقے نے کسی او ربجائے اعظم شانو کی حمایت کی ۔

شانو کو ہر طبقے کا ووٹ ملا۔رام اوتار گپتا اور ارویندر پریوال کا کہنا ہے کہ ہم دھرم اور ذات کی بنیاد پر چناؤ نہیں چاہتے تھے۔ دوسرے امیدوار اس قدر مضبوط اور قابل نہیں تھے اس لئے اعظم کا انتخاب کیا۔