گذشتہ کئی سالوں سے مسلمانوں کی بڑھتی آبادی کو خوف کے طورپر پیش کیاجارہا ہے جبکہ حقیقت کچھ اور ہے
نئی دہلی۔مسلمانوں کی بڑھتی آبادی کو خطرہ بتانے والا بیان ایک مرتبہ پھر گردش کررہا ہے۔ راجستھان میں بی جے پی کے ایک رکن اسمبلی بنوری لال سنگھ کو مسلمانوں کی بڑھتی آبادی کا خوف اتنا سستارہا ہے کہ وہ اپنی عوامی پلیٹ فارم پر یہ کہہ گئے کہ مسلمان اس سے ملک پر کچھ ہی سالوں میں قبضہ کرلیں گے۔معاملہ صرف ایک رکن اسمبلی کا نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی مسلمانوں کی بڑھتی آبادی کا خوف بڑھانے کے بیانات آتے رہے ہیں۔
ابھی حال ہی میں جین دھرم کے مذہبی رہنما جین منی کا ایک ویڈیو وائر ل ہوا جس میں اس مذہبی رہنما نے مسلمانوں کے گھر میں زیادہ بچے پیدا ہونے کا رونا رویا ہے۔ اس سے قبل ہندوستان کے وزیر داخلہ بھی مسلمانوں کی بڑھتی آبادی کا حوالہ دے چکے ہیں اور آر ایس ایس کے لیڈر اس طرح کے بیانات دیتے رہتے ہیں۔ سنگھ پریوار سے وابستہ لیڈران مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں‘ کبھی اس کی وجہ مسلمان عورتوں کا دس بچے پیدا کرنا بتایاجاتا ہے توکبھی بنگلہ دیشی دراندازی۔
با ت صرف یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ کچھ لوگ آگے بڑھ کر صرف مسلم آبادی کو مسئلے بتاتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کی آبادی کو نہیں روکا گیا یا ہندوؤں کی آبادی نہیں بڑھائی گئی تو ہندووستان پر مسلمانوں کا قبضہ ہوجائے گا۔ آخر مسلمانوں کی بڑھتی آبادی کی حقیقت کیاہے؟ اس طرح کے بیانات مسلسل کیوں سامنے آرہے ہیں؟۔ کیو ں مسلمانوں کی آبادی کا نام لے کر بردارن وطن میں خوف پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟۔
آخر انتخابات کے موقع پر ہی ایسے بیانات کیوں آتے ہیں؟۔ ان سب سوالات کا جواب آسانی سے مل سکتا ہے اگر 2011کی مردم شماری کے اعدادوشمار کا مطالعہ کیاجائے۔ مردم شماری کے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں ہندوؤں ہی نہیں ‘ مسلمانوں ‘ عیسائیوں ‘ بدھ مذہب کے پیروکاروں‘ سکھوں اور جین یعنی ہر مذہب کے ماننے والوں کی آبادی کے اضافہ کی شرح کم ہوئی ہے۔