مسلمانوں کے ہر مسئلہ کو عجوبہ کیوں بنادیتے ہیںیہ لوگ۔

اپنے عوام کی خوشی اور اس کی اجازت لینا ہر جمہوری حکومت کا فرض ہے جسے اسے نبھانا چاہئے۔ شیش نارائن سنگھ
نام نہاد لوجہاد کے بارے میں تنازع کھڑا کرنا اپنے ملک میں ایک خاص نظریہ کے لوگوں کا کاربار بن گیاہے۔ عموما اسی مسلمانوں کو بدنا م کرنے کے لئے کیاجاتا ہے۔ تازہ معاملہ کیرالا کا ہے۔ نومسلم لڑکی ہادیہ کے معاشقہ او رشادی کرنے کے حق کے معاملے میں سپریم کورٹ میں کیس چل رہا ہے۔کیرالا میںآر ایس ایس کے لوگ کافی عرصہ سے فعال ہیں او رایسا لگتا ہے کہ اپنی تنظیم کو مزید مضبوط بنانے کے چکر میں اس معاملے کو تول دیاجارہا ہے۔

ہادیہ نے اپنی پسند کے لڑکے سے نکاح کرلیاتھا۔ہادیہ کے والدین نے مقدمہ کیا۔ کیس ہائی کورٹ میں گیا‘ جہاں اپنی پسند کے مرد سے شادی کرنے کے ہادیہ کے حق کو غیرمناسب پایاگیاتھا۔ فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی ہے فیصلہ ابھی نہیں آیا۔ لہذا اس معاملے میں کوئی تبصرہ کانا مناسب نہیں ہے۔ اس کے شادی کرنے کے حق پر جب سپریم کورٹ کا فیصلہ ائے گا تو اس پر بحث کی جائے گی۔ سماعت کے دوران سپریم کورڈ نے مناسب سمجھا کہ اس کی تعلیم کو جاری رکھنا چاہئے تو اس کے لئے ضروری ہدایت دی گئی ہیں او روہ تملناڈو میں میڈیکل کالج میں اپنی تعلیم پر کام کررہی ہے ۔

لیکن مبینہ لوجہاد کے باریہ میں بات کی جاسکتی ہے اس پر سماجی نقطہ نظر سے غور وفکر کیاجاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کو سیاسی رنگ میں رنگنے کی کوشش کے بارے میں بھی بات کی جاسکتی ہے۔ پچھلے دنوں میں ایک بار تین طلاق کے بارے میں سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ آیاتھا۔حکومت اس کو قانونی شکل دینا چاہتی ہے۔

لیکن تقریبا روز ہی اس موضوع سے ٹی وی پر بحث کی گئی۔ سوال یہ ہے کہ اس مسئلہ پر اتنی اہمیت دے کر ٹی وی والے کیاثابت کرنا چاہتے ہیں۔ بحث میں کچھ مولویوں کو بیٹھا کر پوری مسلم برداری کو گھیرنے کی کوشش کا کیامطلب ہے؟اس طرح کے اور بھی سوالات ہیں جن کے جواب ایک شہری کے ناطے ہم کودینا چاہئے۔ اس سوال کا جواب دینا ہے کہ ملک کے کمزور طبقوں کی لڑکیوں کے ساتھ اتنا ظلم کیوں ہورہا ہے۔دراصل ایک لڑکی اور ایک لڑکے کے درمیان ہونے والی محبت کو لوجہاد کانام دینا اور اس کو بنانا سماج میں رمدوں کے غلبہ کا ایک نمونہ ہے۔ اس طرح کے زیادہ تر معاملات میںیہ دیکھا گیا کہ جو غریب یا متوسط طبقے کے لوگ ہیں‘ ان کو ہی بے عزت کرنے کے لئے نشانہ بنایاجاتا ہے۔

یہ نیا بھی نہیں ہے۔ ہندو لڑکی او رمسلم لڑکے کے درمیان محبت کو ہمیشہ ہی آر ایس ایس او راس کی ماتحت تنظیمیں حقارت کی نظر سے دیکھتی ہیں۔ بی جے پی کے سابق نائب صدر سکندر بخت کو بھی آ رایس ایس کے اس غصہ کا شکار ہونا پڑا ۔ بعد میں تو وہ بی جے پی کی مہربانی سے مرکزی وزیراور گورنر بھی ہوئے۔ لیکن آر ایس ایس کے اخبار آرگنائز ر نے 2جون 1952کے شمار میں ان کے بارے میں جو لکھا ہے اس سے صاف ہوتا کہ آر ایس ایس نے ان کو ہمیشہ ہی شک کی نظر دیکھا ۔سکندر بخت اینڈ کمپنی کے عنوان سے ان کے بارے میں جو باتیں لکھی تھیں وہ کسی کو بھی قابل اعتراض لگ سکتی ہیں۔اخبار کو شک تھا کہ اس وقت کے کانگریس لیڈر سکندر بخت کسی بڑی کانگریسی خاتون لیڈر کی محبت میں گرفتار ہیں اور اس کے ساتھ رہ رہے ہیں۔

اس کو مرکز میں رکھ کر کافی کچھ لکھا گیاتھا۔ بعد میں جب انپوں نے ایک ہند و لڑکی سے شادی کرلی تو دہلی میں کافی ہنگامہ آرائی کی گئی تھی۔ لہذا یہ کہنا ٹھیک نہیں ہے کہ ہندو ۔ مسلم کی محبت او رشادی پر آ رایس ایس کے لوگ اب زیادہ پر تشدد ہوگئے ہیں۔یہ ہمیشہ سے ہی ایسے ہی تھے۔ ان کی سیاسی طاقت بڑھ گئی ہے او ران کے اور اب ان کے اس طرح کے کارنامے کو سیاسی سرپرستی حاصل ہے اسی وجہہ سے وہ زیادہ جارحیت پسند ہوگئے ہیں۔ایک دلچسپ بات غور کے قابل ہے ۔ لوجہاد اور اس کے مربوط تشدد کا شکار عام طور پر غریب یا نچلے پائیدان پر موجود لوگ ہی ہوتے ہیں۔

امیر یاسیاسی طور پر طاقتور لوگوں پر لو جہاد کے حملہ آور کچھ نہیں بولتے۔ملک بھر میں ایسے لاکھوں جوڑے ہیں جو ہندومسلم شادیوں کی انوکھی مثالیں ہیں لیکن ان پر کبھی کسی لوجہادی نے جہاد نہیں چھیڑا۔ شاہ رخ خان‘ عامر خان ‘ سیف علی خان‘ عرفا ن خان‘ سلیم خان‘ نصیر الدین شاہ‘ ساجد ناڈایڈوالا‘ عمر ان ہاشمی‘ مظفر علی ‘ امتیاز علی ‘ عزیز مرزا‘ فرحان اختر‘ وغیرہ بہت سارے فلمی اداکاروں کی بیویاں ہندو ہیں۔یہ طاقتور لوگ ہیں ۔ شائد اسی لئے ان کے خلاف کبھی کوئی بیان نہیں آیاہے۔

بی جے پی لیڈر مختار عباس نقوی ‘ شہنواز حسین او رایم جے اکبر کی بیویاں بھی ہندو لڑکیاں ہیں۔ ان کا کبھی ذکر نہیں ہوتا‘ شائد اس لئے کہ یہ تو اپنے لوگ ہیں۔ اصل مسئلہ سماجی او راقتصادی ہے جو لوگ معاشرے کے غریب ترین طبقے سے ہیں ان کو تمام برانڈ کے سیاستداں او رمذہبی تلوار چمکانے والے نشانہ بناتے ہیں او ریہ مسئلہ صرف ہندو مسلم جوڑوں تک محدود نہیں ہے۔

گذشتہ کئی سالوں سے تقریبا روز ہی اخبار میں ایسی کوئی نہ کوئی خبر نظر آجاتی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ کسی لڑکی کو اس لئے قتل کردیاگیا کہ اس نے اپنے خاندان والوں کی مرضی کے خلاف جاکر شادی کرلی تھی۔ اسی ہفتے میں ایک حیرت انگیز خبر پڑھنے کو ملی جس میں لکھا تھا کہ ایک ئڑکی اپنے کسی بوائے فرینڈ کے ساتھ سینما دیکھنے چلی گئی۔

لڑکی کے والد او ربھائی کو وہ لڑکا پسند نہیں تھا۔ باپ اور بھائیوں کے اپنی ہی لڑکی او ربہن کے گینگ ریپ کیااور اس کو سبق سیکھانے کی کوشش کی۔ یہ حیوانیت کیوں ہے؟ یہ سوال حکومت کے دائرے میں جائے گا‘ تو اس کو قنان کی نظر سے دیکھے گی۔اس خبرمیں بھی پولیس کا موقف اخبار میں چھپا تھا لیکن ا س کااصلی حل پولیس نہیں نکال سکتی ہے۔

اس مسئلہ کے حل کے لئے معاشرے کو آگے آنا پڑے گا اور اس کا گہرائی سے مطالعہ کرنا پڑے گا او ر کوئی صورت نکالنی پڑے گی۔ اب تک تو جو بھی طریقے بتائے گئے ہیں وہ ٹھیک نہیں ہیں۔شاید معاشرہ او رملک کے لوگوں نے اس مسئلہ کی حساسیت کو سمجھا ہی نہیں ہے۔دہلی کے ایک سو کیلو میٹر کے دائرے میں تقریبا روز ہی آنر کلنگ کے نام پر لڑکیوں کو مارڈالا جارہا ہے ۔ عجیب بات یہ ہے کہ علاقے کے تمام مقامی رہنما ان قاتلوں کا ہی ساتھ دیتے ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ لیڈروں کو ووٹ سے مطلب ہے او ردیہی معاشرے میں خاندان کا ووڈ دینے کا فیصلہ مروہی کرتے ہیں اور ووٹ کی سیاست میں لڑکیوں کو کوئی رول نہیں ہوتا۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ وہ لڑکیاں سیاسی قوت او رشعور سے آراستہ نہیں ہوتیں ‘ انہیں خود مختار بنائے بغیرسماج کا بھلا نہیں ہونے والا ہے ۔

سرکاری لڑکیوں کو خود مختار بنانے کے لئے بہت سے منصوبے چلارہی ہے۔ بیٹی بچاؤ‘ بیٹی پڑھاؤ‘ اجول ‘ سوادھار‘ خواتین کی تربیت او رانہیں ذمہ داری دینے سے متعلق منصوبے کاغدوں میں دستیاب ہیں لیکن ان کا حقیقی معنوں میں نفاذ کرنے کے لئے سیاسی اقتدار چاہئے جس کا زبردست فقدان ہے۔ ائین کے 73ویں 74ویں ترمیم کے بعد پنچایتوں کے انتخابات میں کچھ سیٹیں خواتین کے لئے مخصوص کردی گئی تھیں لیکن نتیجہ کیاہوا؟خواتین کا پرچہ بھروایا او ران کے شوہر گاؤں پنچایت کے سربراہ بن بیٹھے ۔ پردھان پتی نام کی ایک مختلف قسم کی مخلوق دیہی ہندوستان میں یاد دہانی کرنے لگی۔

ایسا اس لئے ہوا کہ لڑکیوں کی تعلیم پر ضروری توجہہ نہیں دی گئی تھی۔ بیس سال کے بعد آج بھی خاتون پردھانوں اور سرپنچوں کے حقق استعمال کرتے ہوئے ان کے شوہر یا بیٹے دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان حقوق کو بحال کرنے کے بارے میں کیوں بحث نہیں ہوتی؟

کیااس بات پر بحث نہیں ہونی چاہئے کہ ملک کے ہر مذہب کے ماننے والے اپنے معاشرے کی لڑکیوں کو عزت دیں‘ ان کی پڑھائی لکھائی اور ترقی کا خیال رکھیں او ران انسانی قدروں کی حفاظت کے لئے انتظامات کریں اور ان کے انسانی حقوق کا تحفظ کریں ۔ پراپرٹی میں انہیں حصہ دار بنائیں۔اسلام میں تو لڑکی کا یہ حق حاصل ہے۔ معاشرہ کے ہر طبقہ میں غیر لڑکیوں کی جو حالت زار ہے اس پرسماج کو نظر ڈالنی پڑے گی۔ایک معاشرے کے طور پر مسلمانوں کے سامنے بہت سارے

مسائل ہیں‘ ان کو حل کیاجاناہے لیکن ان کو عجوبہ کی طرح پیش کرنا کہاں کی انسانیت ہے؟ معاشرہ ‘ حکومت او رسیاسی اداروں کو اس طرح کے حالات میں مداخلت کرنا پڑے گا۔ سماج میں ان کوباعزت زندگی گذارنے کے لئے ان کو خود مختاری دینے پڑے گی۔لڑکیاں کسی بھی مذہب کی ہوسکتی ہیں جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے ان کے بہت سارے مسائل کا حل قرآن شریف میں دستیاب ہے۔

اس مقدس گرنتھ کی صحیح تشریع سے ہر مسئلہ حل ہوتارہا ہے ‘ آگے بھی ہوگا۔ حکومت کوچاہئے کہ اگر وہ مسلمانوں کے بارے میں کوئی قانون بناناچہتی ہے تو کلام پاک میں لکھی ہوئی باتوں پر بھی غور ضرور کرے۔ یہ ضروری ہے ۔ اپنے عوام کی خوشی اور اس کی اجازت لینا ہر جمہوری اجازت لینا ہر جمہوری حکومت کا فرض ہے جسے اسے نبھانا چاہئے۔