کاروانِ محبت کے ساتھ اپنے حالیہ انٹرویو میں نصیرالدین شاہ نے پولس انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ کے قتل پر اپنی گہری مایوسی اور ناراضگی ظاہر کی تھی۔ شاہ کے انٹرویو سے ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں میں موجود عدم تحفظ کے جذبہ کو اظہار ملا۔ اس انٹرویو نے ہمیں یہ یاد دلایا کہ ہمارا ملک کس سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ لیکن اس پر سماج کے عدم برداشت والے طبقہ نے تلخ رد عمل ظاہر کیا۔ سوشل میڈیا پر نصیرالدین شاہ کو گالیاں دی گئیں اور انھیں ہر طرح سے بے عزت بھی کیا گیا۔
آر ایس ایس کے ترجمان ‘آرگنائزر’ نے نصیرالدین شاہ کے دور کے رشتے کے بھائی سید رضوان احمد کا ایک انٹرویو شائع کیا ہے، جس میں احمد کو اسلامی دانشور بتایا گیا ہے۔ اپنے انٹرویو میں احمد نے کہا کہ مسلمان صرف ان ممالک میں غیر محفوظ ہیں جہاں وہ اکثریت میں ہیں اور یہ بھی کہ ہندوستان میں عدم برداشت کی جڑیں، مسلمانوں کے دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ پرامن طریقے سے رہنے میں ناکامی میں پیوست ہیں۔ وہ مسلمانوں کو شاہ بانو اور کشمیری پنڈتوں کے معاملوں میں مناسب کردار ادا نہ کر پانے کا قصوروار بھی ٹھہراتے ہیں۔ ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ اس سے ہندووں کو ایسا لگا کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ عدم برداشت دراصل جھوٹے سیکولرزم اور عدم برداشت والے مسلمانوں کی غلط سوچ ہے۔
جہاں تک مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کا سوال ہے، ان کے حالات پر ہمیں غور کرنا ہی ہوگا۔ یہ درست ہے کہ مسلمانوں کو یہ نہیں ماننا چاہیے کہ وہ پوری دنیا کے نشانے پر ہیں۔ لیکن کیا ان کے حالات کے لیے مسلمانوں کو ہی قصوروار ٹھہرانا مناسب ہے؟ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستان کے سبھی ہندو، ملک کے سبھی مسلمانوں کے خلاف ہیں؟۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مغربی ایشیا کے مسلم اکثریتی ممالک میں داخلی جنگ اور تشدد کا زیادہ بول بالا ہے اور اس وجہ سے وہاں کے عام شہری زیادہ غیر محفوظ ہیں، لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ بھلے ہی ہم پاکستان کو دہشت گردی کا حامی بتاتے ہوں لیکن وہاں ہندوستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ بے قصور شہری دہشت گردوں کے ہاتھوں اپنی جان گنوا رہے ہیں۔ اور ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو ایک دہشت گردانہ حملہ میں ماری گئی تھیں۔
اسی طرح تیل پیدا کرنے والے ممالک میں داخلی جنگ اور دہشت گردانہ حملے عام ہیں۔ الگ الگ وقت پر مجاہدین، القاعدہ اور طالبان ان علاقوں میں دہشت اور تشدد پھیلانے کے لیے ذمہ دار رہے ہیں۔ کیا یہ اسلام کی وجہ سے ہے؟ اگر ہاں، تو پھر یہ سب سرد جنگ اور اس کے پہلے کیوں دیکھنے میں نہیں آتا تھا؟
سچ یہ ہے کہ مغربی ایشیا میں تشدد کے پیچھے خام تیل کے وسائل پر قبضہ کرنے کی امریکی چاہت ہے۔ جب روس نے افغانستان پر اپنی فوج کے ذریعہ قبضہ کیا تب امریکہ اپنی فوج سے اس کا مقابلہ کرنے میں نااہل تھا، کیونکہ ویتنام جنگ میں شرمناک شکست سے امریکی فوج کا حوصلہ پست ہو چکا تھا۔ امریکہ نے بڑی چالاکی سے اس علاقے میں کٹرپسند گروپ اور تنظیموں کو فروغ دینا شروع کر دیا۔ اس نے پاکستان میں قائم مدرسوں کے ذریعہ مسلم نوجوانوں کے دماغ میں زہر بھرنا شروع کر دیا۔ اس نے کٹرپسند تنظیموں کو زبردست تعاون کیا (800 کروڑ ڈالر نقد اور سات ہزار ٹن جدید اسلحہ)۔
اس نے اس علاقے میں تشدد، دہشت گردی اور عدم تحفظ کے بیج بوئے۔ محمود ممدانی نے اپنی کتاب ‘گڈ مسلم-بیڈ مسلم’ میں دنیا کی واحد عظیم طاقت کے ذریعہ دہشت گرد گروپوں کو کھڑا کرنے کے عمل کی تفصیل پیش کی ہے۔ زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے 11/9 کے حملے کے بعد امریکی میڈیا نے ‘اسلامی دہشت گردی’ لفظ کی بنیاد ڈالی اور عالمی سطح پر اسلام کے تئیں خوف اور دشمنی کا جذبہ پیدا کیا۔ تیل جو کہ مسلم اکثریتی ممالک کی سب سے بڑی پونجی تھی، وہی ان کی مصیبتوں کا سبب بن گیا۔
ہندوستان میں اسلام عربی تاجروں کے ساتھ آیا اور آگے چل کر بڑی تعداد میں ہندوستانیوں نے اسلام کو اختیار کیا۔ ایسا کرنے والوں میں بہت سے لوگ ایسے تھے جو استحصال والے ذاتیاتی نظام سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اکبر جیسے مسلم بادشاہوں نے بین مذہبی ڈائیلاگ اور میل جول کو فروغ دیا اور راکشش مانے جانے والے مغل بادشاہ اورنگ زیب کے دربار کے کئی اعلیٰ عہدیدار ہندو تھے۔ جہاں آج ہندوستان میں مسلمانوں کو پرتشدد بتایا جا رہا ہے، وہیں کیا یہ سچ نہیں ہے کہ دور وسطیٰ میں ہندووں اور مسلمانوں کے میل جول سے ملک میں گنگا-جمنی تہذیب فروغ پائی، جس کا انتہائی خوبصورت عکس جواہر لال نہرو کی کتاب ‘ڈسکوری آف انڈیا’ اور اس پر مبنی شیام بنیگل کے ٹی وی سیریل ‘بھارت ایک کھوج’ میں پیش کیا گیا۔
تحریک آزادی کے دوران زیادہ تر مسلمان انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ تھے اور انھوں نے ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانے کے لیے ہندووں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر جدوجہد کی اور قربانیاں دیں۔ ملک کے عظیم مجاہدین آزادی میں مولانا ابوالکلام آزاد، خان عبدالغفار خان اور رفیع احمد قدوائی سمیت بڑی تعداد میں مسلمان شامل تھے۔ ملک کی تقسیم حکومت برطانیہ کی ایک سازش تھی کیونکہ برطانیہ، پاکستان کی شکل میں جنوبی ایشیا میں اپنا ایک پٹھو ملک چاہتا تھا۔
ہندوستان میں فرقہ واریت کا زہر پھیلانے کے لیے مسلم لیگ، ہندو مہا سبھا اور آر ایس ایس جیسی فرقہ پرست تنظیمیں ذمہ دار ہیں۔ سردار پٹیل نے تو یہاں تک کہا تھا کہ آر ایس ایس کے ذریعہ پھیلائی گئی فرقہ پرستی کے زہر کے سبب ہی مہاتما گاندھی کا قتل ممکن ہو سکا۔ فرقہ وارانہ فسادات، دہشت گرد ہونے کے نام پر بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں اور گائے کے نام پر لنچنگ نے ملک میں عدم تحفظ کا ماحول تیار کیا ہے۔ بڑھتے عدم تحفظ کی وجہ سے ہی مسلمان اپنے محلوں میں سمٹ رہے ہیں اور ان میں کٹرپسندی بڑھ رہی ہے۔
کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ مسلم طبقہ نے کوئی غلطی نہیں کی۔ اس طبقہ کا وہ حصہ، جس نے شاہ بانو معاملے میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی مخالفت کی، اس طبقہ کو پیچھے دھکیلنے کے لیے ضرور ذمہ دار ہے۔ جس طبقے نے بابری مسجد کے انہدام کو سب سے بڑا ایشو بنا لیا، وہ بھی موجودہ حالات کے لیے کم ذمہ دار نہیں ہے۔ مسلم قیادت کو شناخت سے جڑے معاملوں کو اٹھانے کی جگہ روٹی، کپڑا اور مکان کی بات کرنی چاہیے۔ اسے برابری کی بات کرنی چاہیے۔ ایک نام نہاد اسلامی دانشور کے ذریعہ مسلمانوں کو ہی ان کے حالات کے لیے قصوروار ٹھہرانا، ایک نئی فرقہ وارانہ سوچ کو جنم دینے کی کوشش ہے۔ کیا اس سے زیادہ مضحکہ خیز کچھ ہو سکتا ہے کہ ہم متاثرہ طبقہ کو ہی مجرم بتائیں؟