دفتر سیاست میں موضوعاتی مشاعرہ کا کامیاب انعقاد ۔ تحریک کا مقصد مسلمانوں کے حالات میں سدھار لانا ۔ نیوز ایڈیٹر سیاست جناب عامر علی خان کا خطاب
حیدرآباد۔29مئی (سیاست نیوز) مسلم تحفظات کی تحریک کا مقصد تلنگانہ میں آئندہ دو برسوں میں ہونے والے تقررات میں مسلم نوجوانوں کو ملازمتیں حاصل کرنے کی راہ فراہم کرنا ہے۔ ادارہ سیاست کی اس تحریک میں شعرا کی شمولیت تحریک کو استحکام بخشنے کے مترادف ہے۔ جناب عامر علی خان نیوز ایڈیٹر سیاست نے موضوعاتی مشاعرہ بعنوان ’ مسلم تحفظات ‘ سے صدارتی خطاب کے دوران یہ بات کہی۔ انہوں نے بتایا کہ اللہ رب العزت اس قوم کی حالت کو نہیں بدلتے جس قوم کو اپنی حالت کے بدلنے کا خیال نہ ہو۔ انہوں نے حدیث مبارکہ کے حوالے سے بتایا کہ نبی اکرم ؐنے فرمایا کہ جو شخص اپنے بھائی کیلئے بغیر کسی مفاد کے کوئی مدد کرتا ہے یا اس کے حق میں دعا بھی کرتا ہے تو دو لاکھ فرشتے اس کے حق میں دعاگو رہتے ہیں۔ جناب عامر علی خان نے مشاعرے کے اختتام پر صدارتی کلمات کے دوران بتایا کہ تلنگانہ میں چلائی جانے والی یہ تحریک سیاسی تحریک نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد مسلمانوں کی ترقی کو یقینی بنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر انقلابی تحریک میں شعراء کا کلیدی کردار رہا ہے اور آزادی ہند میں بھی اردو زبان اور شاعری نے جو جذبہ پیدا کیا ہے اسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ شہر حیدرآباد کے علاوہ ریاست کے دیگر اضلاع میں مسلمانوں میں شعور اجاگر کرنے اور انہیں اپنے حق کے حصول کیلئے تیار کرنے میں شعرا اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ محبوب حسین جگر ہال میں منعقدہ اس موضوعاتی مشاعرے میں زائد از 30 شعراء کو کلام پڑھنے کا موقع فراہم کیا گیا اور بیشتر شعراء نے اپنے کلام پر داد و تحسین حاصل کی۔ مزاحیہ شاعر چچا پالموری کے کلام کو خوب پسند کیا گیا جنہوں نے اپنے مزاحیہ اشعار کے ذریعہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوںنے اپنے گیت کے ذریعہ حکومت کو مشورہ دیا کہ
بولا کرتے ہو سو بار ہم بھی برابر کے حقدار
مکر نہ جانا کے سی آر ورنہ پڑے گی رب کی مار
بارہ بارہ جپتے ہو کرتے ہو پھر بندر بانٹ
دیدیو ہم کو دس پر دو رکھ لیو تم اسی پو آٹھ
پروفیسر مسعود فراز کی نظم پر بھی داد و تحسین حاصل ہوئی ۔ انہوں نے حکومت سے بی سی کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ
سر فہرست ہیں پسماندہ طبقات میں مسلم
بہت پیچھے رہے ہیں آج تک ہر بات میں مسلم
ہمیں کوٹہ عطا ہو تو ملے چھاؤں ترقی کی
بہت تپتے رہے ہیں گرمئی حالات میں مسلم
جناب محمد نورالدین امیر کے کلام کی بھی سراہنا کی گئی اور بارہا انہیں کلام سنانے کا اصرار کیا جاتا رہا۔ انہوں نے مطالبات تحفظات کے عنوان پر نظم پیش کی جس میں کئی اشعار کو کافی پسند کیا گیا۔ ان کے ان اشعار کو زبردست پذیرائی حاصل ہوئی۔
ہم احتجاج کی شمعیں جلا بھی سکتے ہیں
حکومتوں کا دیا ہم بجھا بھی سکتے ہیں
ہم اقلیت ہیں سدا بادشاہ گر ہوں گے
ہم اقتدار سے تم کو ہٹا بھی سکتے ہیں
ناظم مشاعرہ جناب اشفاق اصفی کے کلام کو بھی خاصی داد حاصل ہوئی اور انکے انداز نظامت کو بھی پسند کیا گیا۔انہوں نے تحفظات کے عنوان پر دو انقلابی اشعار پڑھے۔
چمک رہا ہے کہ مدہم ہے تاج بولیں گے
تمہارے دور میں کیسا ہے راج بولیں گے
تحفظات کا وعدہ کیا تھا جو تم نے
تحفظات کے بارے میں آج بولیں گے
ان اشعار کو بھی خوب پسند کیا گیا۔ جنا ب رحیم رامش نے میں دو علحدہ نظمیں پیش کیں جنہیں سامعین و شعراء برادری کی جانب سے خوب پسند کیا گیا۔ انہوں نے اپنے کلام کے ذریعہ سدھیر کمیشن کی تشکیل پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ
تم کو سچر کمیٹی نے طاقت دلائی تھی
بد تر دلت سے بھی ہے حالت بتائی تھی
مشرا نے بھی تو اس کی حقیقت جتائی تھی
پھر کس لئے سدھیر کمیشن بٹھا دیا
ڈاکٹر ہادی منزہ کے کلام پر بھی سامعین نے داد دی ۔جناب شفیع اقبال ‘ جناب شکیل حیدر ‘ جناب یوسف روش ‘ جناب حلیم بابر ‘ قاری انیس احمد قادری شرفی انیس‘ جناب باقر تحسین ‘ جناب خواجہ فرید الدین صادق ‘ جناب انیس فاروقی انیس کے کلام کو بھی پسند کیا گیا۔ جناب صابر کاغذنگری نے اپنے کلام کے دوران جناب عامر علی خان کو مسلم تحفظات کے روح رواں قرار دیتے ہوئے ان کی خدمات کی ستائش کی۔ انہوں نے اپنے کلام کے ذریعہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ
کرکے وعدہ مکر گئے صاحب
سب کے دل سے اتر گئے صاحب
چار ہی ماہ کا تھا وہ وعدہ
دن یوں کتنے گذر کئے صاحب
جناب زاہد ہریانوی ‘ جناب ظفر فاروقی ‘ جناب ہنس مکھ حیدرآبادی ‘ جناب زعیم ذومرو کے کلام کی بھی سراہنا کی گئی ۔ شعرا نے حکومت کو مشورہ دیا کہ دو برس بیت چکے ہیں اب تو وعدہ وفا کیا جائے ۔ کنوینر جناب علی بن صالح لحمدی نے آخر میں شرکا ‘ شعرا ‘ سامعین اور منتظمین سے اظہارتشکر کیا۔