سوچی۔ 2 مئی (سیاست ڈاٹ کام) جرمن چانسلر انجیلامرکل بحیرہ اسود کے ساحلی روسی شہر سوچی میں صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کر رہی ہیں۔ اس ملاقات میں یوکرائن، شام اور ایسے دیگر اپریل 2015ء میں جرمن پارلیمان کے متعدد ارکان کو ایک ای میل ملی، جو بظاہر اقوام متحدہ کی جانب سے بھیجی گئی تھی۔ ان پارلیمانی اراکین نے جیسے ہی میل کے ساتھ بھیجی گئی اٹیچمنٹ کھولی، ایک وائرس اْن کے کمپیوٹرز میں گھْس گیا، جو اگلے کئی ہفتوں تک خفیہ معلومات چْراتا رہا۔جرمنی کیلئے یہ واقعہ شرمندگی کا بھی باعث بنا۔ شواہد سے پتہ چلا کہ جرمن پارلیمان دراصل ایک روسی سائبر حملے کا نشانہ بنی تھی۔ یہ وائرس ایک ایسے گروپ کی جانب سے بھیجا گیا تھا، جسے جرمن حکام ’ایڈوانسڈ پرسسٹنٹ تھریٹ 28‘ یا ’فینسی بیئر‘ کے نام سے جانتے تھے۔اس معاملے کا تعلق جرمن سرزمین سے جرمنی کے بارے میں معلومات حاصل کرنا تھا جبکہ جنوری 2016ء میں اسکے بالکل برعکس ہوا یعنی جرمنی کے بارے میں غلط معلومات شائع کی گئیں۔ روسی میڈیا نے ایک رپورٹ جاری کی، جس میں کہا گیا تھا کہ عرب مہاجرین نے برلن کی ایک تیرہ سالہ روسی جرمن لڑکی کو اغوا کیا اور اْس کی آبروریزی کی۔اس خبر کے منظرِ عام پر آتے ہی جرمنی میں آباد روسی کمیونٹی سڑکوں پر نکل آئی اور اس ملک میں امن و سلامتی کے شعبے میں پائی جانے والی مبینہ خامیوں کے خلاف مظاہرہ کیا۔ اگرچہ بعد میں اس لڑکی نے مان بھی لیا کہ یہ ساری کہانی جھوٹی تھی تاہم روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے پھر بھی جرمن حکام پر الزام لگایا کہ اْنہوں نے ’داخلی سیاسی وجوہات کی بناء پر حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کیبن رہے ہیں۔