علی گڑھ :مرکزی حکومت کے ذریعہ مسلم یونیورسٹی سمیت ۵۲ یونیور سٹیوں کی خود مختاری دئے جانے کے فیصلہ سے جہاں ایک طرف آزاد تعلیمی فضا کا احسا س دلایا جارہا ہے وہیں کچھ شکوک و شبہات کو بھی ہوا دی گئی ہے ۔حکوم ت ایک طرف یو جی سی کی پابندیوں سے آزاد ضرور ہے ۔
لیکن فنڈ وغیرہ کے سلسلہ میں جو نظم قا ئم ہے اس میں کسی قسم کی لچک کی وضاحت نہیں ہے۔
لوگوں کا یہ بھی کہناہے کہ اگر حکومت کا یہ قدم کہیں خود کفالتی کی جانب پیش قدمی تو نہیں ہے۔علی گڑھ یونیورسٹی کے ترجمان معروف استاد پروفیسر شافع قدوائی نے حکومت نے مذکورہ اقدام کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہاکہ اس سے نئے کورسوں کو شروع کرنے میں مدد ملے گی او ربیرون ممالک کے بڑے تعلیمی اداروں سے روابط بھی آسانی ہوگی ۔
او ورتحقیق کے معیار میں اضافہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ مذکورہ فیصلہ کے مطابق اب فیس وغیرہ کے تعین میں آزادی اس وقت پی مؤثرہوگی جب فنڈ وغیرہ میں کسی قسم کی تخفیف نہ کی جائے۔
ڈاکٹر ریحان قاسمی نے کہا کہ حکومت ہند اور وزارت فروغ انسانی وسائل مبارکباد کے مستحق ہے جنہوں نے اے ایم یو کی مرکزی کردار کو محسوس کرتے ہوئے اس کو خود مختاری کا درجہ دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ جب سے یہ خبر عام ہوئی ہے علیگ برادری میں ایک مسرت کی لہر دوڑ پڑی ہے۔انہوں نے کہا کہ جس تیزی کے ساتھ سر سید کا ادارہ ترقی کررہا ہے اس میں مزید وسعت آئے گی۔ڈاکٹر افضال احمد نے کہا کہ مرکزی حکومت کے فیصلہ کے مطابق اب مسلم یونیورسٹی او یوجی سی کی غیر ضروری پابندیوں سے نجات مل سکے گی۔
مسلم یونیورسٹی کے طلبہ لیڈر فیصل عثمانی نے اس فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ طلبہ کی بہت سے کورسز شروع کرنے کا عرصہ دراز سے مطالبہ تھا جسے اب پوراہونے سے کوئی نہیں روک سکیں گا۔
طالبہ ارش اقبال نے کہا کہ ہماری یونیورسٹی کے لئے یہ فیصلہ بہت مبارکباد کا مستحق ہے کئی اہم کورسز شرو ع ہونے کا مطالبہ کافی دنوں سے کیا جا رہا ہے جو ًٓ ًٓ را ہوسکے گا۔انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی میں ڈرامہ کلاسز کو با قا عدہ کورس کی شکل میں پڑھائے جانے کا مطالبہ ہے جو پورا ہوناچاہئے۔