مرکز اپنا موقف واضح کرے ورنہ ہم عدالت سے رجو ع ہونگے۔ نرموہی اکھاڑہ

بابر ی مسجد رام جنم بھومی ٹائٹل سوٹ معاملہ کے سب قدیم فریق مرحوم ہاشمی انصاری کے بیٹے اقبال انصاری وہ بھی اس کیس کے اہم فریق کا کہنا ہے کہ مرکز کے اقدام پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔

نئی دہلی۔مرکز ی حکومت کی جانب سے بابری مسجد رام جنم بھومی ٹائٹل سوٹ کیس میں عدالت سے رجوع ہوکر متنازعہ اراضی کو چھوڑ کر ماباقی اراضی کو اس کے ’’ اصلی مالکین‘‘ کے حوالے کرنے کی بات کا وی ایچ پی اور رام جنم بھومی نیاس نے خیر مقد م کیاہے‘ نرموہی اکھاڑ ہ نے کہاکہ اگر مرکز غیرمتنازعہ اراضی کی حصول یابی پر اعتراض پر وضاحت نہیں کرتا ہے تو اس اقدام کو چیالنج کیاجائے گا۔

نرموہی اکھاڑ ہ کے مہنت رام داس نے انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ’’ اگر حکومت وجوہات بتائے بغیر اراضی حاصل کرتی ہے تو ‘ ہم کو عدالت میں چیالنج کریں گے۔

نرموہی اکھاڑہ کی اراضی خود غیرمتنازعہ علاقے میں آتی ہے‘ اور باقی حصہ بھی ہمیں دیدینا چاہئے۔ ہمیں اراضی پر قبضے کا معاوضہ نہیں چاہئے۔ وہاں پر سمترا بھون‘ سالگرام مندر‘ سنکٹ موچن مندر او رکتھا پاندیپ تھے جس کو قبضہ کے بعد منہدم کردیاگیاہے‘‘۔

انہوں نے مزیدکہاکہ ’’حکومت کو چاہئے کہ ( کیس میں شامل)تمام فریقین اپنے اس اقدام میں بھروسہ میں لینا چاہئے۔مگر ہم سے کوئی تبصرہ نہیں کیاگیا‘‘۔

آلہ اباد ہائی کورٹ نے 30ستمبر2010میں بابری مسجد رام جنم بھومی کی متنازعہ 2.77ایکڑ اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کردیاتھا‘ نرموہی اکھاڑہ‘ سنی وقف بورڈ یوپی او ررام للال ویراجمان میں مساوی طور پر یہ اراضی تقسیم کی گئی تھی‘ اخر ی رام للاویراجمان کے حصہ میں وہ اراضی ائی جہاں پر 6ڈسمبر1992کے رو ز کارسیوکوں کے ہاتھوں بابری مسجد کی شہادت کے بعد بھگوان رام کی مورتی بیٹھائی گئی تھی اور اس کے اطراف واکناف میں تارپولین لگادیاگیاتھا۔

رام داس نے کہاکہ ’’ حکومت ہندو اراضی واپس لے سکتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ وہ اس زمین کا استعمال کس وجہہ سے کرے گی؟کیاحکومت کے پاس اس اراضی کو کسی دوسرے کے حوالے کرنے کا منصوبہ ہے؟

منادر کی تعمیر پجاری‘ نیاس یا ٹرسٹ کرتے ہیں ‘ حکومت کے پاس مندر تعمیرکرنے کا اختیار نہیں ہے‘‘۔ا

نہوں نے مزیادکہاکہ ایودھیاایکٹ کے تحت اراضی تحویل میں لی گئی جس کی تجویز ایک اعلی شان مندر او رکچھ فاصلے پر مسجد کی تعمیر ‘ ایک اسکول او رعوامی سہولتوں کی چیزیں قائم کرنا ہے۔