دستورہند کے بنیادی حقوق کی دفعات ۲۹ او ر۳۰ کی پامالی کے مترادف:پروفیسر اختر الواسع
نئی دہلی: اردو یونیورسٹی جودھپور کے صدر پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ جامعہ اسلامیہ ملیہ کے اقلیتی کردار کے خلاف جو حلف نامہ مرکزی حکومت نے دہلی ہائیکورٹ میں داخل کیا ہے وہ حقائق کی نفی کرتا ہے۔یہ دستور ہند کے بنیادی حقوق کی دفعات ۲۹ او ر۳۰ کی پامالی کے مترادف ہے ۔
انہوں نے یہ کہا کہ سرکار کا یہ کہنا ہے کہ چونکہ جامعہ کو مرکزی یونیورسٹی کا درجہ پارلیمنٹ کے ایکٹ کے ذریعہ ملاہے۔
اس لئے وہ اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔حکومت یہ بتا ئے کہ نیشنل کمیشن برائے اقلیتی ادارہ جات بھی پارلیمنٹ کے ذریعہ ہی وجود میں آئے ہیں او رتعلیمی اداروں کو اقلیتی ادارہ قرار دینے کا حق اسے پارلمنٹ نے ہی دیا ہے ۔پھر سرکار اس کے خلاف کیسے جاسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دوسری دلیل یہ دی جارہی ہے کہ سرکار جامعہ کے اخراجات کے لئے گرانٹ دیتی ہے ا سلئے ا سکو اقلیتی ادارہ کیسے کہہ سکتی ہے تو سرکار یہ بتائے کہ جامعہ کو یہ گرانٹ آج سے نہیں 1963سے مل رہی ہے او ریہ کو ئی بھیک نہیں ہے بلکہ جامعہ کا حق ہے۔
اور اس ملک کے مسلمان بھی عام ہندوستانیوں کی طرح برا بر ٹیکس دیتے ہیں ۔او رسرکاری خزانہ پر ان کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کسی اور کا ہے۔
پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ کیسی تعجب کی بات ہے کہ جس ملک میں سکھوں ، جینیوں ،عیسائیو ں اور دیگر مذہبوں کے ماننے والوں کے ادارے ہیں ان پر کوئی حرف گیری نہیں کرتا لیکن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کو بہ حق سرکار ضبط کرنے کی ساری کوششیں جاری ہوں تو وہ نہ کسی طرح سے صحیح ہے اور نہ ہی ایک سیکولر جمہوری نظام میں اس کی اجازت دی جاسکتی ہے۔