مرکزی بجٹ میں تلنگانہ یکسر نظرانداز ، ریاستی حکومت کو مایوسی

ٹی آر ایس حکومت کو مرکز سے کوئی تعاون حاصل نہیں ، نئی ریاست کی عملاً حوصلہ شکنی، ریاستی وزیر فینانس راجیندرکا ردعمل

حیدرآباد۔ یکم فروری (سیاست نیوز) ریاستی وزیر فینانس ایٹالہ راجیندر نے مرکزی بجٹ پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے مرکز سے استفسار کیا کہ کیا ریاست تلنگانہ، ہندوستان کا حصہ نہیں ہے۔ بجٹ غریب عوام کے موافق نہیں ہے۔ حکومت تلنگانہ نے 40,000 کروڑ روپئے کے تجاویز این ڈی اے حکومت کو روانہ کی جس پر ہمدردی سے غور کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا گیا۔ آج یہاں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایٹالہ راجیندر نے کہا کہ ایسے بجٹ کی تلنگانہ کو ہرگز توقع نہیں تھی۔ بجٹ میں غریب عوام کو کوئی راحت فراہم نہیں کی گئی۔ مرکز کی ایسی پالیسی ہونی چاہئے جس سے ملک کی ریاستوں میں مسابقت ہوسکے۔ مرکزی حکومت غیرجانبدارانہ پالیسی تیار کرنے میں ناکام ہوگئی۔ انہوں نے بتایا کہ زیرزمین پانی کی سطح میں کمی عالمی مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ اس کو گلوبل چیلنج کے طور پر قبول کیا گیا ہے۔ تلنگانہ حکومت نے مستقبل کی حکمت عملی تیار کرتے ہوئے زیرزمین پانی کی سطح میں اضافہ کرنے کیلئے مشن کاکتیہ کا آغاز کیا ہے جس کے مثبت نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ زیرزمین پانی کی سطح میں اضافہ ہورہا ہے۔ خشک ہوجانے والے جھاڑ دوبارہ سرسبز ہورہے ہیں۔ پرندوں کا نقل مقام رُک گیا ہے۔ معیاری تعلیم کی فراہمی کیلئے خصوصی منصوبہ بندی تیار کرتے ہوئے 500 سے زائد ریسیڈنشیل اسکولس قائم کئے گئے ہیں۔ ان تعلیمی اداروں کیلئے فنڈز فراہم کرنے کی مرکز سے اپیل کی گئی ہے جس کو بجٹ میں نظرانداز کردیا گیا۔ زراعت، تعلیم اور صحت پر توجہ دینے کا بجٹ کے ذریعہ پیغام دیا گیا، مگر بجٹ حوصلہ بخش ہرگز نہیں ہے۔ تلنگانہ نئی اور چھوٹی ریاست ہونے کے باوجود مالیاتی صورتِ حال کی پرواہ کئے بغیر جو بڑے فیصلے کئے گئے ہیں، اس سے تلنگانہ سارے ملک میں مثالی ریاست بن کر اُبھری ہے۔ مشن کاکتیہ کیلئے 5,000 کروڑ روپئے، مشن بھاگیرتا کیلئے19,205 کروڑ روپئے فراہم کرنے کی نیتی آیوگ اور مرکز سے اپیل کی گئی۔ 88,000 کروڑ روپئے کے مصارف سے تعمیر کئے جانے والے کالیشورم پراجیکٹ پر ابھی تک تلنگانہ حکومت نے 22,000 کروڑ روپئے خرچ کرتے ہوئے مرکز سے 10,000 کروڑ روپئے طلب کیا تھا۔ تقسیم ریاست بل میں کئے گئے وعدے کے مطابق انٹیگریٹیڈ اسٹیل پلانٹ، ریل کوچ فیکٹری، ہارٹیکلچر ٹرئبل یونیورسٹی منظور کرنے کی اپیل کی گئی۔ ان تمام پر 40,000 کروڑ روپئے کے مصارف ہیں، لیکن مرکزی وزیر فینانس نے بجٹ میں تلنگانہ کو نظرانداز کردیا۔ مرکز کا یہ رویہ تکلیف دہ ہے۔ تلنگانہ ایک زرعی ریاست ہے۔ حکومت نے کسانوں کے 17,000 کروڑ روپئے کے قرض معاف کئے ہیں۔ زرعی شعبہ کو 24 گھنٹے معیاری برقی سربراہ کی جارہی ہے۔ 18 لاکھ میٹرک ٹن اناج ذخیرہ کرنے کے گودامس تعمیر کئے گئے ہیں۔ تلنگانہ حکومت کے ان اقدامات کیلئے مرکز سے کوئی تعاون حاصل نہیں ہوا۔ عوام پر طبی اخراجات کے بوجھ کو کم کرتے ہوئے آروگیہ شری، چیف منسٹر ریلیف فنڈ، کے سی آر کیاش جیسی منفرد اسکیمات پر عمل کیا جارہا ہے۔ مرکزی بجٹ میں عوام کے درمیان فرق کو مٹانے کیلئے کوئی اسکیم نہیں ہے۔ نئی سوچ کے ساتھ آگے بڑھنے والی تلنگانہ حکومت کیلئے مرکز کا بجٹ حوصلہ بخش نہیں ہے۔