پولٹری فارم سے نکل کر جو چکن اپنے کچن تک پہنچاتا ہے وہ دراصل تیس سے 42دنوں کا ہوتا ہے۔ ذائقہ پسند لوگ مرغ خوری کو غدائیت سمجھنے لگے ہیں۔ مزوں کے ساتھ جو لوگ چکن سے بنی ہمہ اقسام کی جو ڈش کھارہے ہیں اس کے متعلق انہیں اس بات کاذرہ بھی اندازہ نہیں ہے کہ وہ موت کے قریب جارہے ہیں۔ پولٹری فارم میں پنپنے والے مرغ کو اس قدر دوائیاں کھلائی جاتی ہیں کہ اس کے اندر کی غدائیت پوری طرح ختم ہوجاتی ہے اور اس کے اندر باقی رہتا تو صرف ادویات کااثر جو آہستہ آہستہ اس کا استعمال انسا نی خلیوں میں داخل ہوکر جسم کو نسوں اور خلیوں کو بھی تباہ کردیتا ہے اور جسم کو انٹی بائیوٹیک اداویات کا عادی بنادیتا ہے۔
جس کے بعد مختلف بیماروں کے لئے استعمال کئے جانے والے اینٹی بائیوٹیک ادوایات انسانی جسم پر اثر کرنا بند کردیتی ہیں‘جس کے سبب مریض کی حالت میں سدھا رآنا بندہوجاتا ہے۔ چکن کا استعمال اینٹی بائیوٹیک ادوایات کے اثرانداز ہونے کی وجہہ سے صحت کے مضرثابت ہورہا ہے۔بنگلور کے ایک اسپتال میں د س ایسے مریض موجود ہیں جن پر اینٹی بائیوٹیک دوا اثر نہیں کررہی ہے۔
اسپتال کے ڈاکٹر حیران تھے کہ انہیں اس کی وجہہ دریافت نہیں ہورہی ہے۔اتفاقی طور پر اسپتال کے سی ایم اوڈاکٹر کو سیفی کو خیال آیا کہ کیں ایسا تو نہیں کہ ان مریضوں کی عادی خوراک کی وجہہ سے ان پر دوائیاں اثر نہیں کررہی ہیں۔ جب اس کے متعلق مریضوں سے سوال پوچھاگیاتو جواب سن کر ڈاکٹر سیفی متفکر ہوگئے۔
دس مریضوں نے بتایا کہ وہ چکن ڈش کا شوق کے ساتھ استعمال کرتے ہیں اور اس کے بغیرکھانا نہیں کھاسکتے۔ ڈاکٹر سیفی کو محسو س ہوا کہ ایسا نہ ہوکہ کہیں چکن میں ہی کوئی بیماری ہوجس کا اثر مریضوں پر ہورہا ہے۔
انہوں نے فوڈ سنٹر آف سائنس اینڈانوائرمنٹ( سی ایس ای) سے رابطہ کیاجس کے بعد سی ایس ای نے پولیشن مانیٹرینگ لیباریٹری ( پی ایم ایل او)کو چکن کا نمونہ حاصل کرنے کے لئے کہا۔ دہلی او راین سی آر سے حاصل کئے گئے چکن کے نمونوں کی رپورٹ سے کچھ ایسے حقائق منظر عام پر ائے ہیں جس کو سن کر سبھی کے ہوش اڑ جائیں گے۔
سی ایسای کے ڈائرکٹر جنرل سنیتا نارائن کے مطابق 70فیصد چکن میں اینٹی بائیوٹیک اداویات کے اثرات پائے گئے ہیں اور چالیس فیصد چکن ایسا ہے جس پر ایک سے زائد اینٹی بائیوٹیک ادوایات کا استعمال کیاگیا ہے