اسداللہ بیگ خان کا27ڈسمبر1797میں اگرہ کے کالا محل کے ایباک ترک خاندان میں جنم ہوا تھااور وہ سلجوق حکمرانوں کے زوال پذیر ہونے کے بعد سمر قند ( آج کا دور ازبکستان) چلے گئے تھے ‘ انہوں نے مرزا غالب کے تخلص سے شاعری شروع کی
۔کوئی نہیں جانتا کہ محض تیرہ سال کی عمر یہ بچے دہلی کب آیا‘ جو اپنے پیچھے ایک خزانہ چھوڑے گا جس کو نسل در نسل یاد کیاجائے گا۔کچھ لوگوں کے لئے وہ گنگا جمنی تہذیب کا علمبردا ر تھا تو کچھ دیگر کے لئے وہ اُردو کا نہایت پرکیف شاعر تھا جس کے اشعار نے محبت او رایثار قربانی کے سلسلے کو برقرار رکھا۔
اور کچھ لوگوں کے لئے وہ ولی نہیں تھے بلکہ پولرازم کی ایک نشانی تھے۔ تاہم تمام یونیورسٹیوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ وہ محض ایک شاعر تک محدو د نہیں تھے بلکہ الفاظ کے جادوگر تھے ۔
اس عظیم شاعر کے 221ویں یوم پیدائش کے موقع پر ان کے لکھے دس ایسے اشعار ہیں جنھیں یہاں پر تحریر کرتے ہوئے انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے
اہ کو چاہئے کہ ایک عمر عصر ہونے تک
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک
بازچائے اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب روز تماشہ میرے آگے
بس ایک دشوار ہے سب کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا
درد منت کاشِ دوا نہ ہو
میں نہ اچھا ہوا برانہ ہوا
ہزاروں خواہشیں ایسے کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے
کعبہ کس منھ سے جاؤ گے غالب
شرم تو کو مگر نہیںآتی
کہاں مۂ خانہ کا دروازہ غالب او رکہاں وعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتاتھا کہ ہم نکلے
کوئی میرے دل سے پوچھے تیرا تیرہ نام کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پاس ہوتی
محبت میں نہیں ہر فرق جینے او رمرنے کا
اس کودیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پر دم نکلے
نا تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈوبو یا مجھ ہونے نے نہ ہوتا تو کیاہوتا