نئی دہلی : جہاں ایک جانب آسام میں غیر ملکی دراندازی کا نام دے کر لاکھوں لوگوں کو ان کی شہریت سے محروم کردینے کی پالیسی پر عمل جاری ہے وہیں دوسری جانب خاموشی کے ساتھ ایک ترمیمی بل لاکر بنگلہ دیش سے آئے ہندؤوں کو ہندوستانی بنانے کی بھی تیاری کی جارہی ہے۔جس کا انکشاف اس وقت ہوا جب آسام سے ہی آنے آنے والے سابق وزیر اعلی آسام پرفل کمار مہتہ او ردیگر سابق وزراء کے علاوہ موجودہ ممبران اسمبلی نے نئی دہلی میں آسام آندولن سنگرامی مارچ او ردھرنا کا انعقاد کیا ۔ان لوگوں کا کہنا تھا کہ سٹیزن ایکٹ ۱۹۵۵ء ترمیمی بل ۲۰۱۶ء واپس لیا جائے او رکسی بھی شخص کو مذہب کی بنیاد پر شہریت نہ دی جائے ۔ مظاہرین مودی حکومت کے خلاف نعرہ بازی کررہے تھے ۔
اس موقع پر سابق وزیر اعلی پروفل کمار مہتہ نے کہا کہ آسام کے لوگوں نے آسام اکورڈ کو مان لیاتھا جس میں ۲۴؍ مارچ ۱۹۷۱ء کی آدھی رات سے قبل تک کے سبھی ایسے لوگ جو آسام میں تھے ان کا آسام کا حصہ او ربھارت کا شہری تسلیم کیا گیا تھا ۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے مگر اس کے بعد شہریت ایکٹ ۱۹۵۵ء میں ترمیم لانے کے لئے ۲۰۱۶ء ترمیمی بل جو پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا ہے اس کو فوری طور پر واپس لیاجائے ۔ پروفل نے کہا کہ ہم یہ بات کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کریں گے کہ مذہب کی بنیاد پر بنگلہ دیش کے ہندوؤں کو ہندوستانی بنانے کی کوشش کی جائے او راس کے لئے بل تک لایاجائے ۔یہ سراسر غیر قانونی ہے اور جمہوری نظام کی خلاف ورزی ہے ۔انہوں نے کہا کہ بھارت ایک سیکولر ملک ہے جہاں مذہب کی بنیاد پر کوئی کام نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ایسے میں بنگلہ دیشی ہندؤں کو کس سازش کے تحت آسام کا شہری بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ اس بل کو واپس لینے کے ساتھ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ آسام اکورڈ ۱۹۸۵ء کو فوری طورپر لاگو کیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ یقیناًغیر ملکی بھی آسام میں ہیں او راین آر سی ایک بہترین قدم ہے جس سے پتہ چلنا چاہئے کہ صوبے کے اصل شہری کتنے لوگ ہیں مگر اس میں جو خامیاں ہیں انہیں دور کرنا چاہئے ۔