مدرسہ کے بچوں پر شہناز کو ترس آیا تو گھر پر ہی انگریزی کی مفت تعلیم دینے لگی

نئی دہلی: دلشاد گارڈن میں گرو تیغ بہادر ہسپتال کے سامنے ایک محلہ میں شہنازبانو نامی ایک خاتون رہتی ہیں ۔یہ نہ کو ئی این جی او چلا تی ہیں اور نہ ہی کوئی مہم۔لیکن انکا کام کسی بڑے کارنامہ سے کم نہیں ہے۔انگریزی زبان اور عصری تعلیم کی ضرورت کے باوجود ابھی تک دینی مدارس میں انگریزی زبان کی تعلیم کا رواج نہیں پھیل پایا ہے۔شہناز بانو کو مدرسہ کی مجبوری یا مدرسہ میں تعلیم حاصل کر رہے نو نہالوں کی محرومی بہت کھلتی تھی۔اسی دوران شہناز بانو نے اپنے ایک لڑکے کو حافظ قرآن بنان نے کے لئے مدرسہ کو بھیجنا شروع کیں۔

تین بچوں کی ماں شہناز بانو ایک تعلیم یافتہ خاتون تھیں ۔سماجی طور پروہ بیدار اور حساس تھیں۔جب انہیں پتہ چلا کہ مدرسہ میں بچوں کو انگریزی تعلیم کا نظم نہیں ہے تو انھوں نے مدرسہ کے ناظم سے اس تعلق سے بات کی ۔شروع میں انھوں نے مدرسہ جاکر انگریزی پڑھانے کا ارادہ کیا تھا ۔ لیکن ناظم صاحب نے اس بات کو مسترد کر دیا۔اس پر شہناز نے فیصلہ کیا کہ گھر پر ہی بچوں کے لئے مفت انگریزی تعلیم کا انتظام کیا جائے۔گزشتہ تین برسوں سے یہ کام نہایت خوشدلی کے ساتھ شہناز بانو کر تی ہیں۔شہناز بانو نے کہا کہ میرے والد وزارت خارجہ کے دفتر میں کام کیا کر تے تھے ۔

میں ایک شادی شدہ خاتون ہوں۔میرا بڑا لڑکا سافٹ ویر انجےئر ہے۔اور دوسرا لڑکاڈی فارمیسی کر رہا ہے۔اور سب سے چھوٹا لڑکا حافظ قرآن ہے۔انھوں نے مدرسہ کے تعلق سے کہا کہ مجھے مدرسہ کے بچوں پر ترس آتا تھا ۔صاف ستھرائی کا کوئی نظم نہیں ۔

اور سب سے زیادہ دکھ اس بات کا تھا کہ مدرسہ میں انگریزی تعلیم کا کوئی انتظام نہ تھا۔اگر ایسا رہا تو انہیں مستقبل میں بہت پریشانیاں آسکتی ہیں ۔تو میں نے کوشش کی ہے کہ بچوں کو مفت انگریزی تعلیم دی جائے۔شہناز بانو نے کہا کہ بچے آتے ہیں اور شوق سے پڑھتے ہیں ۔یہ ایک چھوٹی سی کوشش ہے ، خدا اسے قبول کرے۔